Maktaba Wahhabi

105 - 614
لکھنوی فرماتے ہیں کہ اگر اس قسم کی تاویلات کا دروازہ کھول دیا جائے تو بہت سی مسنون قراء ات بھی ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ پھر یہ دعویٰ فی نفسہ باطل ہے کیونکہ نیت کا تعلق توباطن سے ہے جس پر نیت کرنے والے کے بتلائے بغیر مطلع ہونا ممکن نہیں۔ [1] دوسری طرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ بلاشبہ جلیل القدر صحابہ ہیں۔ لیکن مسند روایات کے مقابلہ میں ان کے اَقوال کو اختیار کرنا دن کی روشنی میں چراغ جلانے کے مترادف ہے۔ ویسے بھی صحابہ کرام کئی طرح سے عنداللہ معذور ہیں لیکن واضح دلائل ثابت ہونے کے بعد ہمارے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ جن پر فقہ حنفی کا انحصار ہے، وہ بھی جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائل ہیں۔ان کے قول پر تو عمل نہیں کرتے دوسری طرف احناف حضرت ابوہریرہ کو تو غیرفقیہ قرار دیتے ہیں (جیسا کہ نور الانوار میں ہے) اس کے باوجود جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے سلسلہ میں ان کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا ’’غیر فقیہ‘‘ہونا انہیں نظر نہیں آتا۔ احناف کے ہاں ان دو صحابہ کی اگر اتنی ہی عظمت ہوتی جتنی ظاہر کر رہے ہیں تو وہ انکی روایات کو کبھی ردّ نہ کرتے حالانکہ واقعات اس کے خلاف ہیں۔ حدیث المصراۃ، حدیث التسبیح اور احادیث رفع الیدین وغیرہ اس امر کے واضح شواہد ہیں۔ احناف کی نماز جنازہ کو‘‘جھٹکا‘‘سے تعبیر کرنا اگرچہ کسی حد تک سخت جملہ ہے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ نمازِ جنازہ میں یہ طرزِعمل جہاں خلافِ سنت ہے وہاں میت سے عدم اعتنائی کا مظہر بھی ہے۔ اب آخری بات یہ ہے کہ میرا تعاقب چونکہ ایک خاص مکتب ِفکر کے حاملین سے متعلق تھا۔ ظاہر ہے اس کے حقیقی مخاطب وہ لوگ ہیں جو اس بدعت کے موجد ہیں نہ کہ جملہ اَحناف، اگرچہ فقہی مسلک میں دیوبندی اور بریلوی سب متفق ہیں۔مجھے قوی اُمید ہے کہ یہ چند گزارشات آپ کی تشفی کے لئے کافی ہوں گی۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کو صراط ِ مستقیم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین! نماز جنازہ میں دیگر دعاؤں کے علاوہ ’’سورۃ فاتحہ‘‘ پڑھنے یا نہ پڑھنے کے دلائل کا جائزہ : (1) ’’صحیح بخاری‘‘میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ) [2] ”جس نے نماز میں فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں۔‘‘
Flag Counter