Maktaba Wahhabi

397 - 614
سے ’’الصحیح‘‘ کا انتخاب کیا اور بحیثیت مجموعی امت نے ان پر اعتماد کیا۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ بلاشبہ عبقری انسان تھے اور حدیث کی خدمت میں ان کی مساعی لازوال ہے۔ مگر ان کا کچھ اپنا اسلوب ہے۔ صحیحین کی ارجحیت کے بھی وہ قائل نہیں۔ اسی لیے وہ ان کی روایات کو اوّلیت نہیں دیتے بلکہ اپنی تحقیق و تنقید میں بسا اوقات بلا دریغ ان پر حرف گیری فرماتے ہیں۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ سے قبل بھی بعض حضرات نے ’’صحیحین‘‘ کی بعض روایات پر تنقید کی ہے۔ مگر ہر دور میں بحمد اللہ ان کا دفاع بھی ہوتارہا۔ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتراضات کا جواب علامہ نووی اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دیا۔ حافظ زین الدین عبدالرحیم العراقی نے اس سلسلے میں(اَلْاَحَادِیْثُ الْمُخرجۃ فِی الصَّحِیْحَیْنِ اَلَّتِیْ تُکُلِّمَ فِیْہَا بِضْعْفٍ وَ اِنْقِطَاعٍ)کے نام سے مستقل کتاب لکھی، علامہ عراقی کے فرزند ارجمند حافظ ولی الدین ابو زرعہ احمد بن عبدالرحیم نے بھی (الْبَیَان وَالتَّوْضِیْح لِمَن خَرَّجَ لَہ فِی الصَّحِیْحِ وَ قَدْ مَسَّ ضَرب مِنَ التَّجْرِیْحِ)کے نام سے مستقل رسالہ لکھا۔ گویا صحیحین کی بعض روایات پر تنقید بھی ہوئی مگر بحمد اللہ اس کا دفاع بھی ہر دور میں ہوتا رہا۔ جس کی تفصیل سے بحمد اللہ یہ ناکارہ بہت حد تک باخبر ہے۔ ”صحیحین‘‘ میں مختلط راویوں کی روایات مروی ہیں۔ عموماً محدثین متاخرین کے ہاں تو صحیحین کی عظمت اور ان کے مصنّفین کی تحقیق و تنقیح کی بناء پر یہ قاعدہ ہی قرار پاجائے کہ مختلطین سے روایت کرنے والوں نے اختلاط سے پہلے سنا ہے۔ اور اگر ثابت ہو جائے کہ راوی نے اختلاط کے بعد سنا ہے تو اس کے بارے میں یہ طے پا جائے کہ امام بخاری و مسلم نے ان کی احادیث کو منتخب کیا ہے اور جس کو صحیح سمجھا اس کو (الصَّحیح)میں درج کیا ہے۔ جیسا کہ ’’ہدی الساری‘‘ (ص:406) میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اور صحیح ابن حبان کے مقدمہ (ج:1،ص:90) میں امام ابن حبان نے صراحت کی ہے۔ جس کی تفصیل ’’توضیح الکلام‘‘ (ج:2،ص:466۔ 469)میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب مختلط راوی کے بارے میں یہ فیصلہ ہے تو مدلس کے بارے میں بھی اسی اصول کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے ۔ کسی متاخر کا صراحت سماع نہ ملنے پر انقطاع کا حکم اس کااپنا فیصلہ ہے۔ شیخین کا تتبع و تفتیش بہرحال ان سے مقدم ہے اور صحیحین پر اس قسم کی تنقید قطعاً خوش آئند نہیں۔(مولانا ارشاد الحق اثری) (22جون 2001ء) (3) (از مولانا سید محمد قاسم شاہ، سندھ) جناب حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امید ہے کہ مزاج عالی مع الخیر ہوں گے۔ پہلے ایک جواب ارسال کر چکا ہوں اب دوسرے سوال کے متعلق یہ تحریر ارسال خدمت کر رہاہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین۔ میں اب بھی اپنے اسی موقف پر قائم ہوں کہ ’’صحیحین‘‘ کا جو مرتبہ و مقام ہے وہ کتب احادیث میں کسی اور کا نہیں
Flag Counter