Maktaba Wahhabi

354 - 614
کعبہ کی بابت کوئی روایت نظر سے نہیں گزری جس میں اس بات کی تصریح ہو۔ واللّٰہ الھادی للصواب۔ مقام ابراہیم علیہ السلام پر قدموں کے نشانات کی حقیقت سوال۔مقامِ ابراہیم علیہ السلام پر پاؤں کے نشانات کیا واقعی ابراہیم علیہ السلام کے قدم کے ہیں؟ (سائل)(27 نومبر 1998ء) جواب۔ تاریخی اور تفسیری روایات میں اسی طرح مشہور ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَ کَانَتْ آثَارٌ قَدَمَیْہِ ظَـاہِـرَۃً فِیْہِ وَ لَمْ یَزل ھٰذَا مَعْرُوْفَۃٌ تَعْرِفُہُ الْعَرَبُ فِی جَاھِلِیَّتِھَا) [1] ”یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات پتھر میں نمایاں ہیں۔ ہمیشہ سے یہ بات معروف ہے۔ عرب اپنے زمانہ جاہلیت میں بھی اس سے شناسا تھے۔‘‘ تفسیر قرطبی(2/113) میں بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اثبات نقل کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری۔(8/169) شہرت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کا اصل ہے۔ طوافِ زیارت اور طوافِ الوداع کا حکم سوال۔کیا طوافِ زیارت کے ساتھ ہی طواف الوداع کیا جا سکتا ہے۔ طواف الوداع کی کتنی مدت ہے۔ کیا ایک دفعہ میقات سے گزرنے کے بعد دوبارہ آکر طواف الوداع کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر ہر صورت میں طواف الوداع کرکے طائف جانا چاہیے۔(یہ میقات قرن المنازل سے باہر ہے) (سائل ڈاکٹر حبیب الرحمن کیلانی، طائف، سعودی عرب)(12 جون 2009ء) جواب۔ طوافِ زیارت اگر تاخیر سے ہو تو دونوں اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ طوافِ الوداع کے بعد مکہ سے کوچ کرجائے۔ ہاں البتہ اگر نماز کا وقت ہو تو نماز پڑھ کر سفر کو جائے ۔ اتنی تاخیر کا کوئی حرج نہیں۔ بلاوجہ زیادہ رُکنا نہیں چاہیے۔ ہاں واپس دوبارہ آکر طوافِ الوداع ہو سکتا ہے اور اگر واپس نہ آئے تو فدیہ دے۔[2] تاہم کوشش ہونی چاہیے کہ طوافِ الوداع کے بعد مکہ مکرمہ سے رخصت ہو۔ برادرِ محترم ڈاکٹر صاحب کی خواہش کے مطابق سولہ سوالوں کے جوابات بالاختصار عرض کردیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمیع اعمال میں خلوص بخشے۔آمین کیا طواف وداع میں سعی نہیں ہوتی؟ سوال۔اپنی کوتاہ علمی کی وجہ سے علمائے کرام کی تصانیف وتالیفات سے دینی مسائل کا حل تلاش کرتا ہوں ان کی کسی بھی
Flag Counter