Maktaba Wahhabi

120 - 614
صحیح بخاری میں حدیث ہے: (مَنْ أَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیہِ، فَہُوَ رَدٌّ )[1] ”جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (عَلَیْکَ بِالْأَثَرِ وَطَرِیْقَۃِ السَّلَفِ وَإِیَّاکَ وَکُلَّ مُحْدَثَۃٍ فَإِنَّھَا بِدْعَۃٌ )’’آثار اور طریقہ سلف کو لازم پکڑو، اپنے آپ کو دین میں اضافہ سے بچاؤ وہ بدعت ہے۔‘‘[2] ابن الماجشون نے کہا کہ میں نے امام مالک سے سنا، وہ فرماتے تھے: ”جو دین میں بدعت ایجاد کرکے، اسے اچھا سمجھے تو گویا وہ یہ باور کراتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی ہے،اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ) جو شے اس وقت دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی“ امام شافعی فرماتے ہیں:’’جس نے بدعت کو اچھا سمجھا اُس نے نئی شریعت بنا لی‘‘(السنن والمبتدعات) رہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اَثر (فعل صحابی ) تو اس کا تعلق نمازِ جنازہ کے متصل بعد سے نہیں بلکہ اس کا تعلق دفن میت کے بعد سے ہے کیونکہ مصنف نے اس اثر پرجو عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکورہ جملہ آثار اسی بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس دعا کا تعلق تدفین میت کے بعد سے ہے ، عنوان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے: ۔۔۔(فِی الدُّعَائِ لِلْمَیِّتِ بَعْدَ مَا یُدْفَنُ وَیُسَوِّی عَلَیْہِ) قبر پر مٹی برابر کرکے میت کے لئے دعا کرنے کا بیان۔ اور تدفین کے بعد میت کے لئے دعا کرنا ثابت شدہ امر ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداللہ ذی نجا دین کی قبر پردیکھا، جب دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ رُخ ہاتھ اٹھا کر دعا کی‘‘[3] تمام خیر سنت نبوی کی پیروی میں ہے ، اور بدعت میں شر ہی شر ہے ۔اللہ ربّ العزت جملہ مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین! نمازِ جنازہ کے بعد میت کے پاس اکٹھے ہو کر دعا کرنا: سوال۔ نمازِ جنازہ کے بعد جمع ہو کر دعا کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب۔ کتاب وسنت سے ثابت نہیں لہٰذا بدعت ہے۔
Flag Counter