Maktaba Wahhabi

215 - 614
(مِمَّنْ خَرَقَ لِأَجْلِ الْمُصِیبَۃِ ثِیَابَہُ، أَوْ رَفَعَ صَوْتَہُ بِالنَّدْبِ وَالنِّیَاحَۃِ، أَوْ حَلَقَ لَہَا شَعْرَہُ وَکَانَ مِنْ ہَدْیِہِ ۔صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ أَنَّ أَہْلَ الْمَیِّتِ لَا یَتَکَلَّفُونَ الطَّعَامَ لِلنَّاسِ، بَلْ أَمَرَ أَنْ یَصْنَعَ النَّاسُ لَہُمْ طَعَامًا یُرْسِلُونَہُ إِلَیْہِمْ، وَہَذَا مِنْ أَعْظَمِ مَکَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَالشِّیَمِ، وَالْحَمْلِ عَنْ أَہْلِ الْمَیِّتِ، فَإِنَّہُمْ فِی شُغْلٍ بِمُصَابِہِمْ عَنْ إِطْعَامِ النَّاسِ) (وَکَانَ مِنْ ہَدْیِہِ ۔صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ تَرْکُ نَعْیِ الْمَیِّتِ، بَلْ کَانَ یَنْہَی عَنْہُ وَیَقُولُ: (ہُوَ مِنْ عَمَلِ الْجَاہِلِیَّۃِ)، وَقَدْ کَرِہَ حذیفۃ أَنْ یُعْلِمَ بِہِ أَہْلُہُ النَّاسَ إِذَا مَاتَ، وَقَالَ: (أَخَافُ أَنْ یَکُونَ مِنَ النَّعْیِ)[1] یعنی ’’تعزیت کے لیے اہل میت کے ہاں جمع ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں تھا اور نہ میت کے لیے قرآن خوانی پڑھتے۔جو آدمی مصیبت کے موقع پر کپڑے پھاڑتا یا نوحہ کرتا یا سرمنڈاتا اس سے بیزاری کا اظہار کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں سے یہ بھی ہے کہ اہل میت لوگوں کو کھانا کھلانے کی تکلیف نہ کریں۔ بلکہ لوگ کھانا تیار کرکے ان کے پاس بھیجیں۔ یہ بات آپ کے عظیم اخلاق کی نشاندہی کرتی ہے۔ اہل میت کی پریشانی کی بنا پر لوگوں کوکھانا کھلانے کا بوجھ ان سے ہلکا کردیا ہے۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ بھی تھا کہ کسی کی موت پر واویلا اور تشہیر عام کرنے سے روکتے، فرماتے یہ جاہلیت کے امور سے ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مکروہ سمجھا کہ ان کے اہل خانہ ان کی وفات کی کسی کو اطلاع کریں۔ کہا مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں یہ ’’نعی‘‘ (موت کی تشہیر) میں شمار نہ ہو‘‘ کافرکی موت پر اظہارِ افسوس کا حکم؟ کرنا قبر کے پاس اور نہ اس کے علاوہ۔ یہ جملہ امورِ خود ساختہ بدعات مکروہ میں شامل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار یہ تھا کہ ایسے موقع پر خاموشی اختیار کرتے اور اللہ کی قضا و قدر کے ساتھ رضا ء کا اظہار فرماتے۔ اللہ کی حمد وثنا کرتے۔ (اِنَّا لِلّٰہ) سوال۔راجیو گاندھی کے قتل کی خبر سن کر ایک تعلیم یافتہ شخص کے منہ سے بے ساختہ ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) نکلا۔ خبر سنانے والے نے اعتراض کیا کسی غیر مسلم کی موت پر یہ قرآنی جملہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ محلے کے خطیب سے یہ مسئلہ دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن میری تسلی نہیں ہوئی۔ کیوں کہ قرآن پاک میں جہاں یہ جملہ آیا ہے۔ اس کے سیاق و سباق میں صابروں، اور ہدایت یافتہ لوگوں کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ صبر اور ہدایت یافتگی ایک مسلم ہی کا شعار ہو سکتا ہے ۔ بہرحال آپ جواب دیتے وقت صرف منطقی اور قرآنی دلائل ہی نہ دیں بلکہ
Flag Counter