Maktaba Wahhabi

330 - 614
جلدی دیویں، مہربانی ہوگی تاکہ بروقت میں اس کی مدد کر سکوں۔ (ملک عبدالغفور، مجاہد ٹاؤن، میانوالی) (10 مئی 1996ء) جواب۔ مالِ زکوٰۃ عقیدۃً اچھے لوگوں کو ہی دینا چاہیے، ہاں البتہ انسانی ہمدردی کے طور پر عام مال سے اس کی کوئی امداد کردی جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ انسان تو انسان ہے ۔ اسلام نے تو حیوانات کے ساتھ بھی احسان کرنے کی تعلیم دی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: پیاسے کتے کو پانی پلانے کی صورت میں احسان کرنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیاتھا۔ (ملاحظہ ہو’’صحیح بخاری‘‘وغیرہ) اس طرح ممکن ہے۔ اللہ رب العزت آپ کے نامہ اعمال میں اجر و ثواب ثبت کردے،اور اس حسن سلوک سے ان کو رشد و ہدایت کی توفیق میسر آجائے۔ (و ما ذلک علی اللہ بعزیز) کیا مشرک یا بدعتی کو زکاۃ دی جا سکتی ہے؟ سوال۔ کیا زکاۃ یا صدقات وغیرہ ایسے لوگوں کو دیے جا سکتے ہیں جو مشرک ہوں، یا جو باوجود کوشش کے دین کی طرف، نماز، روزہ کی طرف نہیں آتے۔ بلکہ شرک و بدعت کو اپنی جہالت کی وجہ سے دین سمجھتے ہیں۔ پھر تنگ دست بھی ہیں؟(سائل) (21 مئی 2004ء) جواب۔ زکاۃ عشر اور دیگر صدقات مشرک یا بدعتی کو نہیں دینے چاہئیں۔ حدیث میں ہے: ( لَا یَاْکُلْ طَعَامَکَ اِلَّا تَقِیٌّ )[1] ”تمہارا کھانا صرف پرہیز گار ہی کھائے۔‘‘ اس لیے زکاۃ وغیرہ صرف پرہیز گار کو دینی چاہیے۔ والداپنی زکوٰۃ سے بیٹے کو تنخواہ نہ دے سوال۔مندرجہ ذیل سوالات کا جواب قرآن وحدیث کی روشنی میںدیں۔ کیا باپ اپنے بیٹے کو تعلیم القرآن کے سلسلہ میں اپنے مال کی زکوٰۃ سے تنخواہ دے سکتا ہے؟(از عبداللہ ) (15 مارچ 1996ء) جواب۔ والد کی زکوٰۃ سے بیٹے کو تنخواہ نہ دی جائے۔ کیونکہ حدیث میں (ہُمْ مِنْ آبَائِہِمْ)[2] یعنی اولاد اپنے آباء سے ہے۔‘‘ کی بناء پر وہ والد کے تابع ہے اور والد چونکہ صاحب زکوٰۃ ہے۔ اس پر زکوٰۃ نہیں لگ سکتی تو اولاد کو بھی نہیں لگ سکتی۔ ہاں البتہ بیٹا اگر جوان ہو اور اس کا اپنا الگ کاروبار ہو ، محتاج ہونے کی صورت میں اس پر زکوٰۃ صرف ہو سکتی ہے لیکن بطورِ تنخواہ نہیں۔
Flag Counter