Maktaba Wahhabi

619 - 614
کی رُو سے یہ حقیقی اور ظاہری وأد ہے مگر مولود کو زندہ دفن کرنے کی نسبت ذرا کم ہے ۔ نتیجتاً اس وعید کے تحت آتا ہے کہ {وَاِِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُئِلَتْ} اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے: (اِنَّ الْعَزْلَ وَأْدٌ خَفِیٍ) [1] یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ یہ عزل ظاہری( یعنی حقیقی) وأد ہے ہی نہیں کہ اس پر کوئی حکم یا وعید مترتب ہو مگر چونکہ مولود کو زندہ دفن کرنا اور عزل کرنا دونوں کانتیجہ قطع الولادۃ ہے۔ لہٰذا اس اشتراک کی وجہ سے اسے وأد قرار دیا۔ جب کہ حقیقی وأد نہیں ہے تبھی تو اسے وأد خفی فرمایا۔ چنانچہ دونوں احادیث باہم متعارض نہ رہیں۔ دیگر تطبیق: بعض نے کہا ہے کہ عزل پر وأد کا اطلاق باہمی مشابہت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ کیونکہ عزل میں مولود کے پیدا ہونے سے پہلے ولادت کے ذریعے کو قطع کیا گیا ہے لہٰذا یہ مولود کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے قتل کردینے کے مشابہ ہوا۔ لہٰذا علی وجہ التشبیہ عزل کو وأد قرار دیا علی وجہ الحقیقۃ نہیں۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی توجیہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس لیے جھوٹا قرار دیا کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عزل کی صورت میں حمل قرار نہیں پا سکتا یعنی عزل حمل سے مانع ہے اوران کے نزدیک یہ قطع نسل کے سلسلے میں ویسے ہی ہے جیسے زندہ دفن کرنا لہٰذا آپ نے انھیں جھوٹا قرار دیا۔ اور خبر دی کہ عزل حمل سے مانع نہیں بلکہ اللہ چاہے تو اسے پیدا کردے اوراگر اللہ اسے پیدا کرنے کا ارادہ ہی نہ کرے تو وہ وأد خفی نہ رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذامہ کی روایت میں اسے وأدِ خفی کا نام اس لیے دیا کیونکہ عزل کرنے والا اس لیے عزل کرتا ہے تاکہ حمل نہ قرار پائے یعنی وہ حمل سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس کے ارادہ اور قصد کو وأد کے قائم مقام قرار دیا لیکن دونوں میں فرق واضح ہے اور وہ یہ کہ حقیقی وأد وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان کا ارادہ بھی شامل ہو اور براہِ راست وأد کے فعل کا بھی ارتکاب کرلے جب کہ عزل کا تعلق خالص ارادہ اور قصد سے ہوتا ہے اس وجہ سے اسے وأد خفی کہا ہے۔ شیخنا علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب ’’آداب الزفاف فی السنۃ المطھرۃ(ص:55،طبع3) میں مذکور تطبیق کو خوب پسند فرمایا ہے۔ اس سے سائل کے بھی جملہ اشکالات کا ازالہ بطریقِ احسن ہو جاتا ہے۔ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فرامین کا تعلق جملۂ عہد نبوت سے ہے۔ تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ اصولِ حدیث میں مدوّن نسخ کی صورتوں میں( نص میں نسخ کی تصریح۔ تاریخ کا علم جمع ناممکن ہو صحابی کی وضاحت وغیرہ) میں سے کوئی صورت بھی اس پر منطبق نہیں ہوتی۔ بالخصوص جب کہ فرمانِ نبوی (اِعْزِلْ عَنْہَا اِنْ شِئْتَ) [2] ’’اگر چاہو تو عزل کرلو۔‘‘ میں اذن مأثور ہے۔ لہٰذا جمع و تطبیع ہی اصل ہے۔ کما تقدم (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ)
Flag Counter