Maktaba Wahhabi

534 - 614
مطبقہ سے ہیں) اس بناء پر علماء نے کہا ہے کہ جو دونوں کے مخارج(ادائیگی) میں تمیز نہ کر سکے کہ اس سے اگر کوئی تبدیلی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ [1] تجوید کے اعتبار سے لفظ وَالضُّحیٰ درست ہے یا وَالدحٰی؟ سوال۔ اکثر لوگ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے وقت’’ض‘‘ کی جگہ’’د‘‘ کی آواز نکالتے ہیں جس طرح ’’سورۃ الضحیٰ‘‘ میں ’’والضُّحٰی‘‘ کی بجائے ’’وَالدُّحٰی‘‘ پڑھتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ ( ماریہ عدیل۔ لاہور) (5جولائی 2002ء) جواب۔ حرف’’ض‘‘ کا مخرج ادائیگی کے اعتبار سے مشکل ترین مخرج ہے۔ علماء کا صحیح قول یہ ہے کہ ضاد اورظاء چونکہ قریب المخرج ہیں لہٰذا ادائیگی میں اگر کوئی کمی بیشی واقع ہو جائے تو معاف ہے۔[2] واضح ہو کہ دونوں طرح کے لوگوں کا مقصود تو ایک جیسے معنیٰ ہی ہوتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ ’’ض‘‘ کو واضح ’’د‘‘ کی آواز میں ادا کرنا غلط ہے۔ کیا تلاوتِ قرآن مجید میں رموزِ اوقاف کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ؟ سوال۔ کیا قرآنِ مجید کے آخر میں تحریر شدہ قراءکرام کی طرف سے تجویز کردہ رموز ِ اوقاف کے مطابق قرآن پڑھنا ضروری ہے؟(سائل) (8۔ اگست 2003ء) جواب۔ ماہرین فن کے بیان کردہ قواعد و ضوابط کا لحاظ ہونا چاہیے جس طرح کہ بالخصوص مدینہ منورہ سے مجمع خادم الحرمین الشریفین الملک فہد کے زیر اہتمام طبع شدہ مصاحف کے اخیر میں وضاحتیں مستند طرق سے موجود ہیں۔ کیا بسم اللہ سورت کا حصہ ہے؟ سوال۔ بسم اللّٰہ کیا سورت کا حصہ ہے؟ (محمد جہانگیر ضلع میرپور) (21اپریل 1995ء) جواب۔ مسئلہ ہذا میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں۔ لیکن راجح قول یہ ہے کہ قرآن کا ہر وہ مقام جہاں بسم اللہ مرقوم ہے اس سورت کا وہ حصہ ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اہل اسلام کا اجماع ہے کہ جو کچھ مابین الدفتین ( دو گتوں کے درمیان ) ہے وہ کلام اللہ ہے۔ مصاحف میں اس کو ثابت رکھنے پر سب کا اتفاق ہے۔اس کے باوجود کہ انتہائی چھان بین کے ساتھ قرآن کو زوائد سے منزّہ رکھنے کی سعی کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اس میں آمین بھی نہیں لکھی گئی۔ شرح مسلم میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ( وَاعْتَمَدَ أَصْحَابُنَا وَمَنْ قَالَ بِأَنَّہَا آیَۃٌ مِنَ الْفَاتِحَۃِ أَنَّہَا کُتِبَتْ فِی الْمُصْحَفِ
Flag Counter