Maktaba Wahhabi

344 - 614
دھوکہ دہی کے زمرہ میں تو نہیں آتا اور صاحب ِ استطاعت بھی رقم بچانے کے لیے ایسا کر سکتا ہے؟ ( عبدالرزاق اختر، رحیم یار خان) (20مئی 1994ء) جواب۔ اسلام کی خاطر جب چوری کرنے کا جواز ہے جس طرح کہ قصہ مرثد میں معروف ہے کہ وہ مکہ سے مظلوم مسلمانوں کو چوری اٹھا کر لے آتا تھا۔[1] اسی طرح حج بھی چوری چھپے ہو سکتا ہے کیونکہ یہ عمل خیر ہے۔ صاحب ِ استطاعت بھی بوقت ِ ضرورت ایسا کر سکتاہے۔ حج اور لڑکی کے نکاح سے مقدم کس کو کیا جائے؟ سوال۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ: ایک آدمی کے پاس اتنی رقم آگئی ہے کہ وہ فریضہ حج ادا کرسکے اور اس وقت اس کی بیٹی بھی جوان ہے، وہ آدمی مذکورہ رقم سے حج ادا کرے یا بیٹی کی شادی کرے؟ (محمد انور،کوٹ لکھپت،لاہور) (17جون1994ء) جواب۔ جس شخص کے پاس فریضہ حج ادا کرنے کی مالی استطاعت موجود ہے اسے حج کی تیاری کرنی چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ) (اٰل عمرٰن:97) ”اور لوگوں پر اللہ کا حق(یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے تو اللہ ہی اہل عالم سے بے نیا زہے۔‘‘ پھر’’صحیح بخاری‘‘میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما کی رویت میں حج کو اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے اہم ترین رکن قرار دیا گیاہے ۔ نیز اہل علم نے اس کی فرضیت کے لیے جو شروط و قیود ذکر کی ہیں ان میں اس بات کا نام و نشان تک نہیں ملتا کہ جس کی اولاد جوان ہو، حج کی بجائے پہلے ان کے نکاح کرے۔ بہرصورت حج کو نکاح سے منسلک کرنا درست بات نہیں۔ بلاشک بیٹی کے نکاح کا اہتمام بھی اپنی جگہ ایک اہم فریضہ ہے لیکن دینِ اسلام نے بیٹی والوں کو مالی معاملات میں قطعاً کسی شے کا مکلف نہیں ٹھہرایا۔ لہٰذا لڑکی کے والد کو چاہیے کہ موزوں دیندار رشتہ تلاش کرے جو رسومات اور فضول خرچی کی قباحتوں سے مبرا ہو تاکہ جانبین کو راحت و آرام میسر آسکے۔ باعثِ تعجب بات یہ ہے کہ آج کے پر آشوب دور میں دین کے دعویدار بھی اسراف و تبذیر کے سمندر میں مستغرق
Flag Counter