Maktaba Wahhabi

273 - 614
صَبِیْحَتَھَا) ’’ھا‘‘ ضمیر کا مرجع بیسویں رات کی صبح ہے نہ کہ اکیسویں رات کی صبح۔ اس کی مثال قرآنِ مجید میں ہے: (لَمْ یَلْبَثُوْا اِلَا عَشِیَّۃً اَوْ ضُحٰہَا )(النازعات:46) کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اوّل حصہ (دنیا میں) رہے اس آیت کریمہ میں دن کے اوّل حصہ کی اضافت آخری حصہ کی طرف ہے حالاں کہ وہ اس سے پہلے ہے۔ شارح بخاری ابن بطال نے کہا ہر وہ شخص جو دوسری شئے کے متصل ہو چاہے پہلے ہو یا بعد اس کی طرف اضافت کا جواز ہے۔ [1] نیز بیسویں کی صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کے پس منظر میں ارشاد فرمایا لیلۃ القدر جس کی تلاش میں ہم نے رمضان کے درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرہ میں ہے جو میرے ساتھ اعتکاف میں ہے وہ اسی حالت میں رہے اور جو گھروں کو جا چکے ہیں وہ واپس آجائیں جانے والے مسجد میں آگئے اور اگر بالفرض آخری دھاگہ کے اعتکاف کا آغاز اکیسویں رات کو ہے تو آپ فرماتے ، رات کو واپس آجانا جب کہ واقعہ اس بات پر شاہد ہے کہ آپ کے ساتھی آخری عشرہ کے لیے بیسویں کی صبح کو اعتکاف میں رہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا آخری عشرہ کے اعتکاف کا آغازبیسویں کی صبح سے ہے یہ عملی دلیل ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں۔ واللہ ولی التوفیق۔ باقی رہا عدد کی کمی بیشی کا مسئلہ سو اس میں ہم شریعت کے تابع ہیں۔ قرآنی الفاظ(فَاتَّبِعُوْنِیْ) میں اسی بات کا درس دیا گیا ہے۔ (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ)(الاحزاب : 21) مسئلہ ہذا پر تفصیلی گفتگو مرعاۃ المفاتیح میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ (10 دسمبر 2010ء) اعتکاف کرنے کی تاریخ اور وقت سوال۔رمضان میں اعتکاف کے لیے کس تاریخ کو اور کس وقت بیٹھنا چاہیے؟ جب کہ بروایت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اعتکاف صبح کی نماز کے بعد بیٹھنا سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اگر اکیسویں روزے کی صبح کو معتکف اعتکاف میں داخل ہوتا ہے تو اکیسویں طاق رات ضائع ہو جاتی ہے اگر بیس کی صبح کو معتکف اعتکاف میں داخل ہو تو پھر طاق رات شامل ہوتی ہے۔ جیسا کہ مولانا عبدالسلام بستوی رحمۃ اللہ علیہ اسی کے قائل ہیں۔ ہمارے ہاں رواجی طور پر اکیس کی رات کو معتکف تیاری کرتا ہے اور صبح کی نماز کے بعد اعتکاف میں داخل ہوتا ہے۔ بالتحقیق اصل صورت حال کیا ہے؟ ( محمد طیب خلیق۔ چونیاں) (20 اپریل 2001ء)
Flag Counter