Maktaba Wahhabi

121 - 614
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ بطریقِ معروف کیوں نہیں پڑھی گئی؟ سوال۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ بطریقِ معروف کیوں نہیں پڑھی گئی؟ اس کی بجائے کیا طریق اختیار کیا گیاتھا؟ جواب۔کائنات کے امام پر امامت کا مسئلہ مشکل امر ہے۔ غالباً اس لیے اس طریق کو اختیار کیا گیا کہ صرف گروہوں کی صورت میں حجرہ شریفہ میں درود پر اکتفا کیا گیا۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم (ص:471) میں ہے: (وَلَمْ یَؤُمَّ النَّاسَ عَلَی رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ ) [1] بے نماز کا نمازِ جنازہ: سوال۔ پچھلے ہفتہ ہماری مسجد رحمانیہ اہلِ حدیث محمد حسین گوٹھ عرفات ٹاؤن میں ایک واقعہ ظہور پذیر ہوا جس سے طبیعت بہت الجھ گئی ہے۔ چونکہ میں نے الحمد ﷲ سعودی عرب میں بھی کچھ وقت گزارا۔ لیکن وہاں پر بھی ایسا نہیں ہوا ۔ ہوا یہ کہ ہماری مسجد میں ایک جنازہ لایا گیا جس کی نمازِ جنازہ امام صاحب نے یہ کہہ کر پڑھانے سے انکار کردیا کہ یہ شخص بے نمازی تھا۔ امام صاحب عالم دین ہیں لیکن ایک خلجان جو پیدا ہو گیا قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔ جواب۔ بے نماز کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ آپ کے امام صاحب نے بصورتِ انکار درست موقف اختیار کیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:( مَن تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَد کَفَر)[2] یعنی ’’جو شخص دیدہ دانستہ نماز چھوڑ دے وہ کافر ہے۔‘‘ جملہ تفاصیل کے لیے ملاحظہ ہو! ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا ’’فتاویٰ اہل حدیث‘‘(2/38تا57) بے عمل و بے نماز والدین کی نمازِ جنازہ کا حکم سوال۔بے عمل اور بے نماز والدین کا جنازہ پڑھایاجائے گا یا کہ نہیں۔ (عبد الرزاق اختر، محمدی چوک، حبیب کالونی گلی نمبر 12 رحیم یار خان) (مارچ 2005ء) جواب۔ بے عمل اور بے نماز افراد کا جنازہ نہیں پڑھانا چاہیے، چاہے وہ قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔ ملاحظہ ہو امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’حکم تارک الصلاۃ ‘‘ سوال۔ قرآن و حدیث کے واضح دلائل ہیں کہ بے نماز کافر ہے اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بے نماز کے کافر
Flag Counter