Maktaba Wahhabi

536 - 614
جواب۔تلاوت شروع کرتے وقت قرآنی آیات کے آغاز میں تعوذ پڑھنی چاہیے اور ’’بسم اللہ‘‘ صرف وہاں پڑھنی چاہیے جہاں اس کی تصریح موجود ہے اور سواری پر چڑھنے کی دعا میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں’’بسم اللہ‘‘ کی تصریح وارد ہے۔[1] آغازِ تلاوت میں بغیر محل بسم اللہ پڑھنے کا حکم؟ سوال۔ قرآن شریف کی تلاوت کے لیے تعوذ اور بسم اللہ دونوں ضروری ہیں کہ نہیں۔ نیز اگر آیتیں درمیان سے تلاوت کرنی ہوں تو کیا ایسی صورت میں بسم اللہ کا پڑھنا جائز ہے۔ جواب۔تلاوتِ قرآن مجید کے موقع پر بلا محل بسم اللہ کی صورت میں آیات کا آغاز صرف تعوذ سے ہونا چاہیے ۔ قرآن حکیم میں ہے: ( فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) (النحل:98) ”اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔‘‘ کیا ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ پہلے پارہ میں شامل ہے ؟ سوال۔ کیا ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ پہلے پارہ میں شامل ہے اگر شامل ہے تو اس کے اوپر پارہ نمبر1 (الٓم) کیوں نہیں لکھا جاتا؟ ( ملاحظہ ہو احسن البیان، المعجم المفہرس میں موجود قرآن) جواب۔ تسمیہ فاتحہ الکتاب اس بات پر دالّ ہے کہ سورت ہذا قرآن کا ایک جزء ہے اور’’صحیح بخاری‘‘کے ترجمۃ الباب میں ہے: (وَسُمِّیَتْ أُمَّ الکِتَابِ أَنَّہُ یُبْدَأُ بِکِتَابَتِہَا فِی المَصَاحِفِ، وَیُبْدَأُ بِقِرَاء َتِہَا فِی الصَّلاَۃِ) [2] ”سورۃ فاتحہ‘‘ کے ابتدائی حصہ میں پارہ نمبر1 (الٓم)لکھنے یا نہ لکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل اہمیت واقعہ کو ہوتی ہے۔ سو وہ ثابت ہے کہ فاتحہ مصحف کا ایک حصہ ہے۔اس وقت میرے پاس تفسیر ابن کثیر کا اردو ترجمہ پڑا ہے اس میں فاتحہ کے آغاز پر پارہ نمبر 1 (الٓم) مرقوم ہے۔ (صِرَاطَ الَّذِیْنً…)سے ( وَلَا الضَّآلِّیْن) تک ایک ہی سانس میں پڑھنا چاہیے سوال۔ ’’سورۃ فاتحہ‘‘ کی آخری آیت(صِرَاطَ الَّذِیْنً…)سے ( وَلَا الضَّآلِّیْن) تک ایک ہی سانس میں پڑھنا چاہیے یا کسی جگہ وقف بھی کر سکتے ہیں؟(سائل) (8۔ اگست 2003ء)
Flag Counter