Maktaba Wahhabi

85 - 614
فقہائے حنفیہ لکھتے ہیں کہ بیری کے پتوں کو پانی میں جوش دیا جائے اور اسی جوش دیےہوئے پانی کے پتوں کو پانی میں ڈالیں اور پانی کو خوب حرکت دیں یہاں تک کہ گاج نکلے، پس اس گاج کو میت کے تمام بدن پر ملیں۔ پھر خالص پانی ڈالیں ۔ یہ ایک غسل ہوا ۔ ملک عرب میں یہ دستور ہے کہ بیری کے پتوں کو پانی میں پیس کر میت کو تمام بدن پر ملتے ہیں پھر خالص پانی سے بدن کو صاف کردیتے ہیں۔ فائدہ۔میت چونکہ منہ اور ناک سے پانی خارج نہیں کر سکتی، اس وجہ سے فقہائے حنفیہ کہتے ہیں کہ میت کو بلا مضمضمہ( کلی) استنشاق( ناک میں پانی ڈالنا) کے وضوء کرانا چاہیے، اور بعض فقہاء لکھتے ہیں کہ میت کو مضمضہ اور استنشاق اس طرح کرایا جائے کہ انگلی میں کپڑا لپیٹ کر اس کے مسوڑھوں اور دانتوں اور لبوں کو مل دیا جائے اور ناک کے نتھنوں میں انگلی پھرائی جائے اور بعض فقہاء لکھتے ہیں کہ میت اگر جنب ہو تو اس کو مضمضمہ اور استنشاق کے ساتھ وضوء کرانا چاہیے اورفقہائے شافعیہ لکھتے ہیں کہ میت کو مضمضہ اور استنشاق کے ساتھ وضوء کرانا چاہیے، جنب ہو یا نہ ہو۔ میں کہتا ہوں کہ ظاہر یہی ہے کہ میت کو مضمضہ اور استنشاق کے ساتھ وضوء کرانا چاہیے اور اگر مضمضہ اور استنشاق نہ ہو سکے تو وہی کیا جائے جو فقہائے حنفیہ نے لکھا ہے، یعنی انگلی میں کپڑا لپیٹ کر اس کے مسوڑھوں اور دانتوں اور لبوں کو مل دیا جائے اور ناک کے نتھنوں میں انگلی پھرائی جائے۔ فائدہ۔تین بار غسل دینے کے بعد میت کی شرمگاہ سے کوئی شئے خارج ہو تو اس کو دھو دینا کافی ہے۔ یا پھر سے غسل دینا چاہیے؟ اس بارے میں علماء کے دو قول ہیں: حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ دھو دینا کافی ہے۔ پھر سے غسل دینے کی ضرورت نہیں اور یہی قول ہے علمائے حنفیہ کا اور محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ تین بار غسل دیا جائے ۔ اگر تین بار غسل دینے کے بعد کوئی شئے خارج ہو تو پانچ بار غسل دیا جائے اور اگر پانچ بار غسل دینے کے بعد کوئی شئے خارج ہو تو سات بار غسل دیا جائے، یہ محمد بن سیرین وہ شخص ہیں جو تجہیز و تکفین کے احکام و مسائل کو تمام تابعین سے زیادہ جاننے والے تھے۔ اور غسل دینے کا طریقہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے سیکھا تھا۔ فائدہ۔کوئی مسلمان مر جانے کے بعد نجس و ناپاک نہیں ہوتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ اپنے مُردوں کو نجس مت کہو، کیونکہ مومن نجس نہیں، نہ زندگی کی حالت میں اور نہ مرنے کے بعد، روایت کیا اس کو سعید بن منصور نے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’شرح بخاری‘‘ میں لکھا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہے۔ اور یہ اثر مرفوعاً بھی روایت کیا گیا ہے۔‘‘ کیا غسل کے وقت مردے کے پاؤں قبلہ رخ ہونا درست ہیں؟ سوال۔ مردے کو نہلاتے ہوئے اس کے پیر کس سمت رہیں۔ حدیث و آثارِ صحابہ کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ (عبدالغنی عاصم۔ لسبیلا) (5مئی 2000) جواب۔ بظاہر اختیار ہے کسی حدیث یا اثر میں پیروں کی سمت کا تعین نہیں۔
Flag Counter