Maktaba Wahhabi

290 - 614
نُعِدُّ لِلْبَیْعِ) [1] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا جو مال خرید و فروخت کے لیے ہو اس کی زکوٰۃ ادا کریں ۔‘‘ اور جو قرض لینا ہے اگر اس کے بروقت ملنے کی امید ہو تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اور جس قرضہ کے ملنے کی امید نہ ہو اگر وہ کئی سالوں کے بعد مل جائے تو اس صورت میں صرف ایک سال کی زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ ( بحوالہ موطا امام مالک) اور دکان پر قرض کی صورت میں اگر اصحاب شرکاء کے ہاں وسعت ہے تو زکوٰۃ دینی پڑے گی ورنہ نہیں یہ بھی یاد رہے کہ مختلف اشخاص کی کسی شئے کا حکم مسئلہ زکاۃ میں ایک شخص کی شئے کا حکم ہے۔ چنانچہ بکریوں والی حدیث اس امر کی واضح دلیل ہے ، شرکاء میں سے ہر ایک کی بکریاں نصاب تک نہیں پہنچتیں مگر اکٹھی ہونے کی صورت میں تکمیل نصاب سے زکوٰۃ پڑ جاتی ہے۔[2] شرکاء دکان کا معاملہ بھی اسی طرح ہے بقدر حصص سب پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ کیا زکوٰۃ تھوڑی تھوڑی کرکے ماہانہ دی جا سکتی ہے؟ سوال۔کیا زکوٰۃ تھوڑی تھوڑی کرکے ماہانہ دی جا سکتی ہے؟ یوں کہ حساب کرکے مالِ زکوٰۃ الگ کر لیا پھر اس میں سے تھوڑا تھوڑا کرکے ادا کرتے رہیں یا یکمشت ادا کرنا لازم ہے؟ جواب۔ زکوٰۃ وجوب کے بعد فوراً ادا کردینی چاہیے۔ فرضیت کا تقاضا یہی ہے۔ پھر خیر القرون کا تعامل بھی اسی پر تھا۔ اور ایک حدیث میں ہے زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں حق ہے اور قرآنی آیت {لَیْسَ الْبِرَّ} اور دیگر آیات جن میں عام انفاق کی ترغیب ہے۔ ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ بلا تاخیر ادا کردینی چاہیے تاکہ بعد میں انفاق ہذا کا موقع میسر آسکے۔ ہاں البتہ مستحقین کے فقدان یا کسی اور سبب سے تھوڑی بہت لیٹ ہو جائے تو بظاہر کوئی حرج نہیں۔(وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ) یتیم کے مال میں زکوٰۃ کا حکم سوال۔ایک نابالغ یتیم بچے کی ایک معقول رقم بینک میں ہے۔ اس رقم میں سے زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہے یا نہیں یعنی اس رقم میں زکوٰۃ ہو گی یا نہیں؟ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔(ایک سائل) جواب۔ الجواب بعون الوھاب۔ یتیم کے مال میں زکوٰۃ کے بارے میں اہل علم کے مشہور تین اقوال ہیں۔ جمہور علماء
Flag Counter