Maktaba Wahhabi

134 - 614
2۔ابوداؤد کے محقق اور مشہور و مسموع نسخوں میں یہ الفاظ یوں ہیں: ( وَ مَنْ صَلَّی عَلٰی جَنَازَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ)[1] ”یعنی جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا اس پر کوئی شئے نہیں۔‘‘ یعنی گناہ وغیرہ۔ تو اس صورت میں یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہی نہیں بنتی بلکہ جواز ہی کی دلیل بنے گی۔ 3۔اگر یہ حدیث ثابت ہو جائے تو اس کی تاویل فَلَا شَیْئَ لَہُ بمعنی فَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ بمعنی ضروری ہے تاکہ مختلف احادیث کو جمع کیا جا سکے۔ اور قرآن میں بھی لَہُ بمعنی عَلَیْہِ وارد ہے۔ فرمایا : (وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَا )(الإسرائ:7) 4۔یہ حدیث کمی ٔ اجر پر محمول ہے یعنی کوئی مجرد جنازہ پڑھ کر واپس آگیا قبرستان تک نہیں گیا تو اس سے اجر کم ہو جاتا ہے۔ علامہ ملا علی قاری حنفی نے کہا یہ بات زیادہ واضح ہے کہ اس حدیث کو نفی کمال پر محمول کیاجائے۔ ان دلائل سے معلوم ہوا کہ مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کا ’’بہشتی زیور‘‘ میں جنازہ کو مسجد میں مکروہ قرار دینا مرجوح اور ناقابلِ التفات مسلک ہے۔ علامہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَالْحَقُّ أَنَّہٗ یَجُوْزُ الصَّلَاۃُ عَلَی الْجَنَائِزِ فِی الْمَسْجِدِ مِنْ غَیْرِ کَرَاہَۃٍ ، وَالأَفْضَلُ الصَّلَاۃُ عَلَیْہَا خَارِج الْمَسْجِد ؛ لِأنَّ أکثَر صَلَاتِہٖ۔ صَلَّی اللّٰہُ علَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ عَلَی الْجَنَائِزِ کَانَ فِی الْمُصَلَّی )[2] یعنی حق بات یہ ہے کہ بلا کراہت نمازِ جنازہ مسجد میں جائز ہے البتہ افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر ہو کیونکہ زیادہ جنازے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جناز گاہ میں پڑھتے تھے۔‘‘ قبروں کے درمیان جنازہ پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ سوال۔ آج ایک جنازے میں شریک ہوئے۔ جہاں قبرستان میں دفن سے قبل جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور صفیں قبروں کو درمیان میں لے کر بنائی گئیں۔ کیا یہ عمل جائز ہے؟(عبدالکبیر گزدر عفی عنہ) (19ستمبر1997ء) جواب۔قبروں کے درمیان نمازِ جنازہ پڑھنی منع ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
Flag Counter