Maktaba Wahhabi

537 - 614
جواب۔( صِرَاطَ الَّذِیْنً…)سے ( وَلَا الضَّآلِّیْن) تک ایک ہی آیت سمجھ کر پڑھنا چاہیے، یہی مسلک راجح ہے۔ اور پہلی آیت بسم اللہ الرحمن ہے۔ مجمع فہد کے طبع شدہ مصاحف میں بھی بسم اللہ کو ترتیب آیات میں پہلی قرار دیا گیا ہے، ’’سورہ فاتحہ‘‘ کی سات آیات اسی طرح بنتی ہیں۔ ”سورۃ حشر‘‘ کی آخری آیات تلاوت کرنے کی فضیلت سوال۔ ’’سورۂ حشر‘‘ کی آخری آیات صبح پڑھنے سے شام تک ستر ہزار فرشتے دعاء کرتے ہیں اور شام کو پڑھنے سے صبح تک ستر ہزار فرشتے دعا کرتے ہیں۔ا ور اس دن یا رات میں مر گیا تو شہید ہو گا۔ کیا یہ حدیث قوی ہے۔ جواب۔ ضعیف ہے۔ آیت کریمہ لا الٰہ اِلَّا اَنْتَ … الآیۃ کا وظیفہ کس طرح کرنا چاہیے؟ سوال۔ اسی طرح اگر کوئی مصیبت آجائے یا کوئی اور وجہ ہو تو آیت کریمہ پڑھواتے ہیں، کیا آیت کریمہ کا پڑھوانا جائز ہے۔ ویسے خود تو انسان اکیلا پڑھ سکتا ہے۔ گناہوں کی بخشش کی وجہ سے ہر وقت ہی خدا تعالیٰ کا ذکر زبان پر ہونا چاہیے۔ آج کل جہالت ہی بہت ہے۔ انسان کو شیطان نے گمراہ کر رکھاہے ۔ مہربانی فرما کر تفصیل سے جواب دیں۔ (از سائلہ قصور) (30 اگست 1991ء) جواب۔ آیت کریمہ (لَااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ)(الانبیائ:87) کا وِردوظیفہ اکیلے صاحب حاجت و ضرورت کو ہی کرنا چاہیے۔ دوسروں سے کرانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ یاد رہے اس وظیفہ کے لیے شریعت میں نہ کوئی وقت مقرر ہے اور نہ دن کا تعین اور نہ کوئی گنتی کی حد بندی۔ جس طرح کہ بعض لوگوں نے اختراعی طریقے ایجاد کرچھوڑے ہیں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ )[1] یعنی ’’جس نے دین میں اضافہ کیا وہ مردود ہے۔‘‘ کیا قرآن حرفاً حرفاً محفوظ ہے؟ سوال۔ کیا قرآن حرفاً حرفاً محفوظ ہے۔ جب کہ بخاری میں ’’سورۃ واللیل‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ ایک صحابی کہتاہے {وَ مَا خَلَقَ} (اللیل:3) کے الفاظ موجود نہیں تھے۔ شامی لوگ ایسا پڑھتے ہیں۔ اسی طرح کی بعض دوسری صحیح روایات موجود ہیں۔ (سائل) (8نومبر1996ء) جواب۔ اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ قرآن مجید کا نزول متعدد قراء توں پر ہوا ہے۔ مشارٌ الیہ قراء ت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بعض شاگردوں نے ان سے نقل کی ہے۔ جب کہ دیگر نے قراء ۃ مشہورہ کے مطابق نقل کی ہے۔ زیر نظر موجود کیفیت اثبات و اعتماد کی صورت میں منسوخ التلاوۃ ہے لیکن ابو الدرداء اور انکے رفقاء کو اس بات کا علم نہ ہو سکا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: (ثُمَّ ہَذِہِ الْقِرَاء َۃُ لَمْ تُنْقَلْ إِلَّا عَمَّنْ ذُکِرَ ہُنَا وَمنْ عَدَاہُمْ قَرَؤُوْا وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُنْثَی وَعَلَیْہَا اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ مَعَ قُوَّۃِ إِسْنَادِ ذَلِکَ إِلَی أَبِی الدَّرْدَاء ِ وَمَنْ ذُکِرَ مَعَہُ وَلَعَلَّ ہَذَا مِمَّا نُسِخَتْ تِلَاوَتُہُ وَلَمْ یَبْلُغِ النَّسْخُ أَبَا الدَّرْدَاء ِ وَمَنْ ذُکِرَ مَعَہُ وَالْعَجَبُ مِنْ نَقْلِ الْحُفَّاظِ مِن الْکُوفِیّیْنَ ہَذِہ الْقِرَاء َۃ عَن عَلْقَمَۃ وَعَن ابن مَسْعُودٍ وَإِلَیْہِمَا تَنْتَہِی الْقِرَاء َۃُ بِالْکُوفَۃِ ثُمَّ لَمْ یَقْرَأْ بِہَا أَحَدٌ مِنْہُمْ وَکَذَا أَہْلُ الشَّامِ حَمَلُوا الْقِرَاء َۃَ عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ وَلَمْ یَقْرَأْ أَحَدٌ مِنْہُمْ بِہَذَا فَہَذَا مِمَّا یُقَوِّی أَنَّ التِّلَاوَۃ بَہَا نُسِخَتْ)[2] قرآنِ کریم کو بغیر وضوء کے چھونا اورپڑھنا سوال۔ قرآن کریم کو بے وضو چھونا اور پڑھنا جائز ہے کہ نہیں۔ راجح مذہب کیا ہے؟ (سائل: نور زمان۔ بنوں شہر۔ صوبہ سرحد) (27نومبر 1998ء) جواب۔ قرآن مجید کو بلا وضوء چھونے کے بارے میں اہل علم کے دو قول ہیں۔ جواز اور عدمِ جواز ۔ دلائل کے اعتبار سے ثانی الذکر قول راجح ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { لَایَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ}(الواقعہ:9) ’’اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔‘‘ اور حدیث عمرو بن حزم میں ہے: ( اَنْ لَّا یَمَسَّ القُراٰنَ اِلَّا طَاہِرٌ) [3] ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے تحریر لکھی۔ قرآن پاک صرف پاک ہی چھوئے۔ ‘‘ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (لَا تَمَسَّ الْقُراٰنَ اِلَّا وَ اَنْتَ طَاھرٌ) [4] ”قرآن کو مت مس کر الاّ یہ کہ تو پاک ہو۔‘‘
Flag Counter