Maktaba Wahhabi

321 - 614
ہویا بیرونِ ملک ہو، کیا سب کے لیے یکساں مسئلہ ہے؟ ( مہتمم حاجی محمد ابراہیم۔ لاہور) (28 اپریل 1995ء) جواب۔ مذکورہ پلاٹ چونکہ مالِ زکوٰۃ وغیرہ سے خرید کیا گیا اور اس کی تعمیر بھی اسی مَد سے ہوئی۔ اس لیے یہاں مسجد تعمیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ مسجد سے تو اغنیاء بھی مستفید ہوتے ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق نہیں۔ اگرچہ بعض اہل علم اس کو مصارفِ زکوٰۃ میں سے ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں داخل کرکے جواز کے قائل ہیں ۔ لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کامفہوم اگر اتنا عام ہوتا تو قرآن مجید میں دیگر مصارف بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ سنن ابی داؤد وغیرہ میں چند مخصوص دلائل کی بناء پر علماء کے ایک گروہ نے مصرف ’’فی سبیل اللہ‘‘ کو جہاد اور حج عمرہ کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ ہاں البتہ اگر اس مقام پر مسجد بنانی ناگزیر ہو تو اس عمارت کی قیمت لگا کر کسی اور جگہ خرید دی جائے یا اس رقم کو مستحقین زکوٰۃ پر تقسیم کردیاجائے۔ اس قسم کی عمارت اندرونِ ملک ہو یا بیرونِ ملک سب کا حکم ایک جیسا ہے کیوں کہ مکان و زمان کی تبدیلی سے شریعت کے حکم میں تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ تصدیق۔ حافظ ثناء اللہ صاحب کا فتویٰ صحیح ہے۔(حافظ عبدالقادر روپڑی جامع مسجد قدس اہل حدیث چوک دالگراں) زکوٰۃ کی مد سے مفید کتابوں کی اشاعت کا حکم سوال۔ مد زکوٰۃ سے کتابوں کی اشاعت کا حکم؟(یقین شاہ اور کزئی ابو ظہبی) (25 اکتوبر 1996ء) جواب۔ مفید کتابوں کی اشاعت زکوٰۃ کی مد سے نہیں ہو سکتی۔ شیخنا محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں زکوٰۃ کے مصارف میں ’’فی سبیل اللہ‘‘سے مراد ’’جہاد‘‘ ہے اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج و عمرہ بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں داخل ہے۔ صورت مسؤلہ ’’فی سبیل اللہ‘‘میں داخل نہیں کیونکہ اگر وہ کتاب بطورِ وقف اغنیاء کو دی جاتی ہے تو زکوٰۃ وقف کرنا ثابت نہیں اور اگر بطورِ ملک اغنیاء کو دی جاتی ہے توغنی کو زکوٰۃ دینی جائز نہیں۔ بہر صورت صورت مسؤلہ جائز نہیں۔ (فتاویٰ اہل حدیث :2/525) فقر کی صورت میں بیٹے اور داماد کو زکوٰۃ دینے کا کیا حکم ہے؟ سوال۔کیا باپ اپنے ایسے بیٹے کو زکوٰۃ دے سکتا ہے جو ایک عرصے سے باپ سے علیحدہ ہے۔ اس کی کفالت میں نہیں۔ اس کی دینی حالت بھی اچھی نہیں۔ کبھی کبھار نماز میں غفلت کر جاتا ہے۔ وہ کافی عرصہ سے باپ سے علیحدگی اختیار کر چکا ہے۔ا ور اس وقت اس کی مالی حیثیت انتہائی کمزور اور قابلِ رحم ہے؟ )2)اسی طرح کیا باپ اپنے غریب مستحق داماد کو زکوٰۃ دے سکتا ہے یا نہیں۔ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا (21جولائی1995ء) جواب۔ باپ اپنے سے الگ رہنے والے محتاج بیٹے کو زکوٰۃ دے سکتا ہے۔ چنانچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے ایک شخص نے صدقے کا مال مسجد میں رکھا تاکہ کسی مسکین کو دے دیا جائے۔ اتفاقاً اس کے بیٹے نے آکر اٹھا لیا۔ باپ کو معلوم ہوا تو
Flag Counter