Maktaba Wahhabi

179 - 614
یعنی مذکورہ امور قبیح بدعت ہیں۔ گھر میں میت کی موجودگی میں کھانا کھایا جا سکتاہے؟ سوال۔کیا گھر میں میت موجود ہو تو کھانا کھایا جا سکتا ہے جب کہ رمضان المبارک میں افطاری کا وقت ہے۔ ( قاری عبدالغفار سلفی، نشتر ٹاؤن لاہور) (22 مئی 1998) جواب۔ گھر میں میت کی موجودگی میں کھانا کھایا جا سکتا ہے اور سحری و افطاری وغیرہ کا اہتمام بھی جائز ہے کیونکہ اصلاً اکل و شرب کی اباحت ہے ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔ کسی عزیز کے فوت ہونے پر تین دن تک کھانا کھلانا: سوال۔ بعض لوگ کسی کے فوت ہو جانے پر تین دن تک تمام رشتہ داروں کو جو تعزیت کے لیے آئے ہوتے ہیں، کھانا دیتے ہیں، صرف اس لیے کہ یہ خاندان میں رسم ہے کہ جب کوئی فوت ہو جائے تو تین دن تک خاندان والے باری باری میت والے گھر کو اور تمام رشتہ داروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ پھر اس میں یہ خیال بھی رکھا جاتا ہے کہ صرف مرغی ہی پکے۔ کھانے کے بعد چائے بھی ضروری قرار دی جاتی ہے۔ غرض یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ میت والا گھر ہے۔ گھر کی عورت چولہے کے آگے کھڑی ہوتی ہے، کھانے اورچائے کے ساتھ ساتھ دنیا جہان کی باتیں زیر بحث ہوتی ہیں۔ کیا یہ بدعت میں نہیں آتا جب کہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان تمام مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ ( طیبہ نسرین، اسلام آباد) (25 جون 2004) جواب۔ صرف میت کے گھر والوں کو وقتی طور پر کھانا کھلانے کا جواز ہے۔ حدیث میں ہے جب حضرت جعفر کی شہادت کی خبر آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اِصْنَعُوْا لِاَلِ جَعْفَرَ طَعَامًا فَقَدْ اَتَاہُمْ مَا یُشْغِلُہُمْ)[1] ”سبل السلام‘‘ میں ہے: (وَ اَمَّا الْاِحْسَانُ اِلَیْہِمْ بِحَمْلِ الطَّعَامِ لَہُمْ فَلَا بَأْسَ بِہٖ وَ ہُوَ الَّذِیْ اَفَادَہُ حَدِیْثُ جَعْفَرٍ)[2] ”اہل میت کو بطورِ احسان کھانا پہنچانے میں کوئی حرج نہیں،حدیث جعفر سے یہی بات مستفاد ہے۔‘‘ ہاں البتہ اہل میت کے ساتھ شرکائے تدفین کا کھانا تیار کرنا ناجائز ہے۔حدیث جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ میں ہے:
Flag Counter