Maktaba Wahhabi

427 - 614
رہے تو وہ زندہ ہے ورنہ مردہ اور بے جان لاشہ ہے۔ آج کی سائنس نے ہماری اس رائے کی تصدیق کردی ہے اور وہ اس طرح کہ ڈاکٹر حضرات نہ صرف دل کا آپریشن کررہے ہیں اور دلوں کا تبادلہ بھی سننے میں آرہا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انتقالِ قلب کے وقت انسان زندہ رہ سکتا ہے جب کہ ایسا کبھی سننے اور دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی تن اور دھڑ سے اس کا سر جدا ہو گیا ہو یا اس کو جدا کردیا گیا ہو اور وہ تن یا دھڑ زندہ رہ گیا ہو۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ زندگی اور موت میں سر ہی حد فاصل ہے۔ اگر سر سلامت ہے اور اس کا رابطہ دھڑ کے ساتھ قائم ہے تو وہ متنفس زندہ ہے۔ ورنہ مردہ ہے۔ لہٰذا وہ مرغی سر جدا ہوجانے کی صورت میں بالکل مردہ تھی۔ لہٰذا اس کو ذبح کرنے کی کوشش بالکل بے سود اور بعد از وقت تھی یعنی وہ حرام ہو چکی تھی۔ (ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ) مرغی ذبح کرتے وقت اگر پوری گردن کٹ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ سوال۔ مرغی ذبح کرتے وقت اگر پوری گردن کٹ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟حلال یا حرام؟ (تلمیذکم: حافظ عبدالوحید) (24نومبر2000ء) جواب۔مرغی وغیرہ ذبح کرتے وقت اگر پوری گردن کٹ جائے تو پھر بھی حلال ہے۔ چنانچہ’’صحیح بخاری‘‘ کے ترجمۃ الباب میں ہے: (وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٌ : إِذَا قَطَعَ الرَّأْسَ فَلاَ بَأْسَ) [1] ”یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما ، ابن عباس رضی اللہ عنھما ، اور انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب جانور کی گردن کٹ جائے تو کوئی حرج نہیں۔‘‘ یعنی پھر بھی حلال ہے۔‘‘ اذان دینے والی مرغی کو ذبح کرنا سوال۔ اگر مرغی اذان دے تو اس کو ذبح کردینا چاہیے یہ رجحان عام ہے۔ کیا یہ قرآن و سنت سے ثابت ہے؟( محمد جہانگیر، آزاد کشمیر) (18 اکتوبر 1996ء) جواب۔اذان دینے والی مرغی کو ذبح کردینے کا رجحان غلط اور جاہلانہ توہم پرستی پر مبنی ہے۔ ضرورت ہو تو اسے ذبح کرنا بلا تردد جائز ہے۔ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔ محض اذان کی وجہ سے اسے ذبح کردینا جاہلانہ فعل ہے۔ شریعت میں اس کا کوئی اصل نہیں۔ پھر جانوروں کی مخصوص اوقات میں بولی پر اذان کا اطلاق عرف عام میں مجازی ہے۔ حقیقتاً نہیں۔ جس طرح کہ جمرات کو عامۃ الناس شیاطین سے موسوم کرتے ہیں۔
Flag Counter