Maktaba Wahhabi

201 - 614
(آدابِ زیارتِ قبور) عورتوں کے لیے زیارتِ قبور کا حکم؟ سوال۔کیا عورتوں کا قبرستان میں جانا جائز ہے۔(از سائلہ قصور) (30اگست 1991ء) جواب۔ عورتوں کو زیارتِ قبور کی گاہے بہ گاہے اجازت ہے بشرطیکہ وہاں جزع و فزع ، بے صبری، بے قراری اور چیخنے چلانے کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ جواز پر دال چند ایک احادیث ملاحظہ ہوں۔ 1۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا جو قبر کے قریب بیٹھے رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اِتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ) [1] حدیث ِ ہذا سے وجہ استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو صرف اللہ کے ڈر اور صبر کی تلقین کی ہے۔ زیارتِ قبور سے منع نہیں فرمایا۔ اگر یہ ناجائز ہوتا تو روک دیتے۔ اصولِ فقہ میں قاعدہ معروف ہے۔ ( تَأْخِیْر الْبَیَانِ عَنْ وَقْتِ الْحَاجَۃِ لَا یَجُوْزُ ) 2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ جب میں قبرستان جاؤں تو کیا کہوں تو فرمایا کہ: ( اَلسَّلَامُ عَلٰی اَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ یَرْحَمُ اللّٰہ ُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ)[2] 3۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر کی زیارت سے واپس آرہی تھیں۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو قبروں کی زیارت سے منع نہیں کیا۔ فرمایا منع تو کیا تھا لیکن بعد میں اجازت مرحمت فرما دی تھی۔ حافظ عراقی نے کہا اس کی سند جید ہے۔[3] نیز امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر جو لعنت وارد ہے یہ بطورِ مبالغہ ہے اور قبرستان میں اکثر و بیشتر جانے والی عورتوں کے متعلق ہے کیوں کہ اس سے خاوندوں کے حقوق ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ بے پردگی ہوتی ہے بعض دفعہ نوحہ وغیرہ کرنے لگتی ہیں۔ اگر یہ کوتاہی نہ ہو تو پھر جائز ہے کیونکہ موت کی یاد کے لیے جیسے مرد محتاج ہے۔ ایسے ہی عورتیں بھی محتاج ہیں۔ امام شوکانی ’’نیل الاوطار‘‘ میں اس عبارت کے اختتام پر فرماتے ہیں:
Flag Counter