Maktaba Wahhabi

535 - 614
بِخَطِّ الْمُصْحَفِ وَکَانَ ہَذَا بِاِتِّفَاقِ الصَّحَابَۃِ وَإِجْمَاعِہِمْ عَلٰی أَنْ لا یَثْبُتُوا فِیہِ بِخَطِّ الْقُرْآنِ غَیْرَ الْقُرْآنِ وَأَجْمَعَ بَعْدَہُمُ الْمُسْلِمُونَ کُلُّہُمْ فِی کُلِّ الْأَعْصَارِ إِلَی یَوْمِنَا وَأَجْمَعُوا أَنَّہَا لَیْسَتْ فِی أَوَّلِ بَرَاء َۃٍ وَأَنَّہَا لَا تُکْتَبُ فِیہَا وَہَذَا یُؤَکِّدُ مَا قُلْنَاہُ)[1] کیا بسم اللہ ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ کی مستقل آیت ہے؟ سوال۔ کیا بسم اللہ الرحمن الرحیم ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ کی ایک مستقل آیت ہے۔ اگر یہ آیت ہے تو دوسری سورتوں میں آیات کی تعداد میں تسمیہ کو آیت شمار کیوں نہیں کیا جاتا؟( ملاحظہ ہو حافظ صلاح الدین یوسف کی تفسیر والا قرآن احسن البیان۔ نیز تاج کمپنی کے قرآن میں ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ میں تسمیہ کو آیت شمار نہیں کیا جاتا۔ کیوں؟ جواب۔راجح بات یہ ہے کہ بسم اللہ ’’سورۃ فاتحہ‘‘ کی مستقل آیت ہے۔ ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تلاوت فرمائی۔ (وَ عَدَّ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اٰیَۃ ) اور بسم اللہ کو مستقل آیت شمار کیا۔[2] اور اسی طرح ہر سورت کی بھی آیت ہے۔ ما سوائے ’’سورۃ توبہ‘‘ کے’’صحیح مسلم‘‘میں حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أُنْزِلَتْ عَلَیَّ آنِفًا سُورَۃٌ فَقَرَأَ: بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ (إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ…الخ)[3] کہ ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ اس کی تلات کا آغاز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ سے فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورت کی آیت ہے۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ اس کو سورتوں کی آیات کی گنتی میں شمار کیوں نہیں کیا جاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی حیثیت سورتوں کے درمیان فصل کی بھی ہے۔ چنانچہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مرفوع روایت میں اس امر کی تصریح موجود ہے۔ اس بارے میں اہل تاج کمپنی کا موقف کمزور ہے۔ راجح ہر سورت کے شروع میں بسملہ شمار میں لانا ہے۔ آیت الکرسی اور سواری کی دعا پڑھنے سے پہلے تعوذ و تسمیہ پڑھ سکتے ہیں؟ سوال۔ آیت الکرسی اور سواری کی دعا پڑھنے سے پہلے تعوّذ و تسمیہ پڑھ سکتے ہیں؟
Flag Counter