Maktaba Wahhabi

383 - 614
کیا ثنیہ (دو دانتے جانور) کے ہوتے ہوئے جذعہ کی قربانی جائز ہے؟ سوال۔کیا ثنیہ (دو دانتے جانور) کے ہوتے ہوئے بغیر کسی شرعی عذر کے جذعہ(ایک سال کا جانور جس کے دانت گرے نہ ہوں) کی قربانی جائز ہے؟ جب کہ بخاری شریف میں ہے: (قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّۃً إِلَّا أَنْ یَعْسُرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَۃً مِنْ الضَّأْنِ )[1] ”نہ ذبح کرو مگر مسنہ، ہاں اگر تنگی ہو تو بھیڑ کا جذع کر سکتے ہو۔‘‘ ناچیز کے نزدیک بخاری شریف کی مذکورہ حدیث کے مطابق اگر کسی بھی جانور کا ثنیہ میسر نہ ہو تو پھر صرف بھیڑ کا جذعہ جائز ہے کیونکہ بخاری کی حدیث زیادہ مفصل ہے۔ آپ احادیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔(ابوطاہر نذیر احمد، عبدالرشید۔کراچی) (23فروری 2001) جواب۔ حدیث (لَا تَذْبَحُوْا…الخ) ’’صحیح بخاری‘‘کی بجائے ’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے۔ حدیث ہذا میں اگرچہ تنگی کی صورت میں دنبے چھترے کے جذعہ( ایک سال کا ) کی قربانی کی اجازت ہے۔ لیکن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت میں مطلقاً بھیڑ کے جذعہ کی قربانی کا ذکر ہے۔[2] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے۔ سنن ابی داؤد میں مجاشع کی مرفوع روایت میں بھی علی الاطلاق جذعہ کا جواز ہے۔ لیکن بیہقی کی روایت میں (جَذَعَۃً مِنْ الضَّاْن) کی تصریح ہے اور ابوہریرہ کی روایت جو ترمذی میں ہے، کے مطابق ’’بھیڑ کے جذعہ کی قربانی اچھی ہے۔‘‘ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہے ، ان احادیث کی وجہ سے جمہور اہل علم نے حدیث (لَا تَذْبَحُوْا… الخ) کو استحباب اور افضلیت پر محمول کیا ہے چنانچہ عبارت یوں ہے: (یسْتَحِبُّ اَنْ لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّۃً فَاِنْ عَجَزْتُمْ فَاذْبَحُوْا جَذْعَۃً مِنَ الضَّاْنِ ) ”یعنی تمہارے لیے مستحب یہ ہے کہ دو دانتا ذبح کرو، اگر ایسا کرنا تمہارے لیے مشکل ہو تو بھیڑ کا ایک سال کا بچہ (چھترا) ذبح کرلو۔‘‘ لہٰذا عمومی استثنائی احادیث کے سبب جمہور مطلقاً (یعنی تنگی اور مشکل کے بغیر بھی) دنبے ،چھترے کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں، اور یہی بات زیادہ واضح ہے، برخلاف اس کے کہ صرف تنگی کی صورت میں (جَذَعَۃً مِنْ الضَّاْن) کی اجازت دی جائے جو موقف آپ نے اختیار کیا ہے صاحب مرعاۃ المصابیح(2/353) نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
Flag Counter