Maktaba Wahhabi

494 - 614
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کی تصویر حرام ہے۔ خواہ اس کا سایہ ہو یا نہ ہو، ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا کہ وہ جس تصویر کو یا بت کو بھی دیکھیں اُسے مٹا ڈالیں۔[1] اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اگر کوئی دوبارہ ان میں کسی چیز کا ارتکاب کرے اس نے دین و شریعت کا انکار کیا۔ جسے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے۔ [2] حافظ ابن حجر حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا ( اِنَّ اَصْحَابَ ھَذِہِ الصُّوَرِ یُعَذَّبُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ یُقَالَ لَھُمْ اَحْیوا مَا خَلَقْتُمْ وَ قَالَ اِنَّ الْبَیْتَ الَّذِیْ فِیْہِ الصُّوْرَۃُ لَا تَدْخُلُہُ الْمَلَائِکَۃِ ) ” یعنی اصحاب صور قیامت کے دن عذاب دیے جائیں گے اوران کو کہا جائے گا جو کچھ تم نے بنایا اس کو زندہ کرو اور فرمایا جس گھر میں تصویر ہو فرشتے داخل نہیں ہوتے، ‘‘ کی تشریح کے ضمن میں فرماتے ہیں، کہ اس سے معلوم ہوا کہ سب تصویریں حرام ہیں اور اس اعتبار سے قطعاً کوئی فرق نہیں کہ ان کا سایہ ہے یا نہیں۔ وہ پینٹ سے بنائی گئی ہیں یا تراشی گئی ہیں یا کرید کر بنائی گئی ہیں یا بن کر بنائی گئی ہیں۔[3] آج کے دور میں کچھ علماء فوٹو گرامی کی تصویروں کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن ان کے پاس واضح کوئی دلیل نہیں۔ شیخ مصطفی جامعی نے ان کی تردید میں خوب لکھا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ فوٹو گرافی کی تصاویر جائز ہیں۔ دوسری طرف علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں وہ تصویر جائز ہے جس میں کوئی خاص فائدہ ہو یا جسے کسی ناگزیر ضرورت کے لیے بنایا جائے چنانچہ فرماتے ہیں ، میں قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ ہم بڑے وثوق کے ساتھ ہر قسم کی تصویر کی حرمت کے قائل ہیں لیکن ہم اس تصویر کی ممانعت کے قائل نہیں جس میں فائدہ متحققہ ہو اور اس کے ساتھ نقصان کا کوئی پہلو ثابت نہ ہو اور یہ فائدہ تصویر کے بغیر ممکن نہ ہو، مثلاً وہ تصویریں جن کی طب اور ڈاکٹری کے سلسلہ میں یا جغرافیہ میں یا مجرموں کی شناخت کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ انھیں پکڑا جا سکے یا لوگوں کو ان سے مطلع کیا جا سکے تو اس قسم کی تصویریں جائز ہوں گی، بلکہ شاید بعض مخصوص اوقات میں واجب بھی ہوں، اس کی دلیل دو درج ذیلی حدیثیں ہیں۔ 1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری سہیلیوں کو میرے پاس لے آیا کرتے تھے تاکہ وہ میرے ساتھ کھیلیں۔
Flag Counter