Maktaba Wahhabi

175 - 614
موجود ہے۔ لیکن ہمارے ہاں بیٹھنے کی موجودہ کیفیت محل نظر ہے۔ حضرت جریر کی روایت میں ہے کہ اہل میت کے ہاں اجتماع کوہم نوحہ (بین) شمار کرتے تھے۔ دوسرا دعا کے آداب میں سے ہے کہ آدمی باوضوء ہو ۔بیٹھنے والے تو حقے کا دَور چلا کر اِدھر ادھر کی باتیں ہانک رہے ہوتے ہیں۔ اہل میت کا حزن و غم ہلکا کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کے موجب بنے ہوئے ہوتے ہیں۔اسی حالت میں یکے بعد دیگرے فاتحہ پڑھنے کے آوازے آنے لگتے ہیں۔ بظاہر یہ منظر روحِ دعا کے منافی ہے۔ لہٰذا بایں حالت اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ تعزیت کے موقعے پر میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا حکم سوال۔میت والے گھر جا کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا قرآن و سنت کی رُو سے درست ہے یا نہیں؟ (حافظ محمد مسعود سلفی ۔سیالکوٹ) (16 جنوری 2004ء) جواب۔اصلاً میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر ( یا ہاتھ اٹھائے بغیر ) دعا کرنا ثابت ہے لیکن میت والے گھر کی مخصوص مجلس میں اور مخصوص حالت میں دعا کرنا ثابت نہیں۔[1] تدفین کے بعد کے ایام میں تعزیت کے وقت دعائے مغفرت کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ سوال۔مردہ بھائی کے لیے اس کی تدفین کے بعد کے ایام میں دعائے مغفرت کا مسنون طریقہ کیا ہے ؟ کیا اس کے لیے دعا کرتے وقت کسی وقت ہاتھ اٹھانے کا جواز ہے ؟ جواب۔ بلاتعیین وقت اور مکان کے میت کے لیے ہر وقت مغفرت کی دعا ہو سکتی ہے ۔ قرآن میں ہے: (رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ ) (الحشر:10) ”اے پروردگار! ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں، گناہ معاف فرما۔‘‘ نیز میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے۔ حدیث میں ہے: (فَدَعَا بِمَائٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ فَقَالَ: اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِعُبَیْدٍ أَبِیْ عَامِرٍ وَرَأَیْتُ بَیَاضَ إِبْطَیْہِ۔ ثُمَّ قَالَ : اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَوْقَ کَثِیْرٍ مِّنْ خَلْقِکَ مِنَ النَّاسِ)[2]
Flag Counter