Maktaba Wahhabi

429 - 614
شکاری جانور یعنی کتا وغیرہ شکار سے اگر کھالے تو اس میں سے نہیں کھانا چاہیے۔ صحیحین میں حدیث ہے کہ: ’’کتا شکار میں سے اگر کھا لیتا ہے تو تو نہ کھا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہے۔‘‘ [1] سابقہ آیت میں بھی یہی ہے کہ اس سے کھاؤ جو انھوں نے تمہارے لیے روک لیا ہے۔ یہودی یا عیسائی اگر خاموشی سے جانور ذبح کردے تو کیا حکم ہے؟ سوال۔ ۱11 نومبر 1994ء ،شمارہ 45 میں ’’احکام و مسائل‘‘ میں آپ نے یہود و نصاریٰ کے ذبیحہ کے متعلق لکھا تھا کہ ان کا ذبیحہ حلال ہے لیکن اگر تو سنے کہ وہ غیر اللہ کا نام لے رہا ہے تو مت کھا، لیکن اگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کسی کا نام لیے بغیر ذبح کرتا ہے۔ یعنی کسی کا نام نہیں لیتا بلکہ وہ گوشت بیچنے کے لیے کرتا ہے تاکہ رقم ملے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ کیا ان کا وہ ذبیحہ حلال ہے ؟ اس کے علاوہ اگر یہود ونصاریٰ کے علاوہ کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو یا کسی سے تعلق نہ ہو اور پھر کسی کا نام لیے بغیر ذبح کرے اور ہم کو اچھی طرح معلوم ہو تو کیا اس کا گوشت کھانا جائز ہے؟ تفصیل سے ذکر فرمائیں۔ ( سائل۔ ارسلان حسن خان برکی،فیصل آباد) (30۳۰ جون 1995ء) جواب۔ جس یہودی یا عیسائی کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ اس نے اللہ کا نام لیے بغیر ہی خاموشی سے جانور ذبح کردیا ہے یہ بھی نہیں کھانا چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے: ( وَ لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسْقٌ } (الانعام:121) ”اور جس چیز پر اللہ کانام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے۔‘‘ یہود و نصاریٰ کے علاوہ دیگر ادیانِ باطلہ والوں کا ذبیحہ ہر صورت حرام ہے کیونکہ شرعی نص میں صرف ان کو مخصوص کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ( وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ) (المائدۃ:5) ”اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے۔‘‘ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ( وَالطَّعَامُ اِسْمٌ لِمَا یُؤْکَلُ وَالذَّبَائِح مِنْہُ وَ ہُوَ ہُنَا خَاصٌ بِالذَّبَائِحِ عِنْدَ کَثِیْرٍ مِّنْ اَھْلِ الْعِلْمِ) [2]
Flag Counter