Maktaba Wahhabi

414 - 614
بھی بھائی بن گیا۔لیکن سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ اس سے پردہ کرے ،کیونکہ اس کی شکل و صورت زانی سے ملتی جلتی تھی۔ جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔ اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردہ کا حکم ہوا۔ اور جس کے گھر میں پیدا ہوا، اُس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے ۔ اس میں بھی دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہو گا۔ زکوٰۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے۔ اس بناء پر بھینسے کی قربانی جائزنہیں اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِنَ الْبَقَرِ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے۔یہ بھی اسی زکوٰۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث،ج:2،ص:426۔427) یہ وہ عظیم مسئلہ ہے جس کی بنا پر محقق شہیر مولانا عبدالقادر حصاری رحمۃ اللہ علیہ نے شیخی المکرم کو مجتہد کے لقب سے نوازا تھا۔ [1]رحمھما اللّٰهَ رحمۃ واسعۃ (حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی صحیح میں اس احتیاطی پہلو کو خوب واضح کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: باب تفسیر المشبہات کتاب البیوع) یاد رہے گائے اور بھینس تیس رأس میں سے ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی، بچہ یا بچی زکوٰۃ میں واجب ہے بشرطیکہ وہ باہر چرتی ہوں۔ ان کا چارہ قیمتاًنہ ہو۔[2] بھینس کی قربانی جائز ہے یا ناجائز؟ سوال۔ بھینس کی قربانی جائز ہے یا ناجائز؟ علمائے بہاول پور کا موقف یہ ہے کہ بھینس کی قربانی کا چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام سے کوئی ثبوت نہیں۔ اور قرآن پاک کی ’’سورہ الانعام‘‘ کی (آیت ـ44) میں آٹھ نر و مادہ جانوروں کا ذکر ہے اور ان میں بھینس شامل نہیں۔ لہٰذا اس کی قربانی بھی نہیں۔ (یہاں سے قربانی کا استدلال جائز نہیں۔ کیونکہ یہ سورہ مکی ہے اور احکامِ قربانی مدینہ میں نازل ہوئے) جب کہ دوسرے شہروں سے یہاں آنے والے علمائے کرام کا موقف اس کے برعکس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھینس کی قربانی اگرچہ مسنون نہیں مگراس کا جواز ضرور ہے کیونکہ ’’سورۃ الحج‘‘ آیت نمبر:34/28میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کے لیے بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ (چوپائے) کی شرط لگائی ہے۔ اور بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ کا لفظ عام ہے جس کو
Flag Counter