Maktaba Wahhabi

93 - 614
(فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا لَایَکُوْنَ الْیَوْمَ دِیْنًا) ”یعنی جو شئے عہد ِ رسالت میں دین نہیں تھی۔ وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی۔‘‘ اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ… } (المائدۃ:3) جو شخص اسلام میں بدعت ایجاد کرکے اسے مستحسن خیال کرتا ہے، وہ گویا یہ سمجھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام رسانی میں (نعوذ باللہ من ذلک) خیانت کی ہے۔ اصل یہ ہے کہ ایسے موقع پر انسان خود اپنی موت بھی یاد کرکے اپنے لیے زادِ راہ بنائے۔ شریعت میں زیارتِ قبور کا یہی فلسفہ بیان ہوا ہے کہ ’فَاِنَّہَا تُذَکِّرُ الآخرۃ ‘ واضح ہو کہ بدعت کا یہ خاصہ ہے کہ ہمیشہ استحسانی صورت میں سامنے آتی ہے جب کہ فی الواقع ایک مسلم کامطمح نظر ہر حالت میں ہمیشہ کتاب و سنت کی پیروی ہونا چاہیے۔ خواہ وہ عمل بظاہر کتنا ہی کم نظر آئے۔ کیونکہ اصل قدرو قیمت تعلق بالشریعت کی ہے۔ ’اَلْخَیْرُ فِی الاتِّبَاعِ وَالشَّرُّ کُلّ الشَّر فِی الاِْبْتِدَاعِ‘ قبرستان کی طرف گزرتے جنازہ کے لیے کھڑا ہونے کا حکم سوال۔ جب جنازہ گزر رہا ہو تو کھڑا ہونا چاہیے یا نہیں؟ (محمد آصف عزیز سلفی،شیخوپورہ) (6 اکتوبر1995) جواب۔ اس بارے میں جواز عدمِ جواز دونوں قسم کی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ جمہور اہل علم جنازہ کے لیے قیام کے لیے نسخ کے قائل ہیں۔ ان کی بنیاد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر ہے: (أَنَّہُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ لِلْجِنَازَۃِ ثُمَّ قَعَدَ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ ) [1] کہ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کے لیے پہلے کھڑے ہوئے مگر بعد میں کھڑا ہونا چھوڑ دیا اور بیٹھے رہتے۔‘‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی دوسری روایت میں ہے: (کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا بِالْقِیَامِ فِی الْجَنَازَۃِ ثُمَّ جَلَسَ بَعْدَ ذٰلِکَ وَ أَمَرَ بِالْجُلُوْسِ) [2] ”کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جنازہ کے لیے کھڑا ہونے کا حکم دیا تھا مگر بعد میں آپ بھی بیٹھ گئے اور ہمیں بھی بیٹھنے کا حکم دے دیا۔‘‘
Flag Counter