Maktaba Wahhabi

312 - 614
دوکاندار اپنی رقم سے زکوٰۃ نکالے یا سارے مالِ تجارت سے؟ سوال۔ایک دوکاندار سال کے بعد صرف اپنی رقم سے زکوٰۃ نکالے یا سارے مالِ تجارت کی؟ وضاحت فرمائیں۔ (محمد ابراہیم نجیب۔ فیصل آباد)(29۔اگست 1997ء) جواب۔ سال بعد مال کی تجارت سے زکوٰۃ دی جائے۔ چنانچہ سنن ابو داؤد میں حدیث ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم ہر اس مال سے زکوٰۃ نکالیں۔ جسے ہم فروختنی مال شمار کرتے تھے۔[1] اور قرآن مجید میں ہے: (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ) (البقرۃ: 267) ”مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمھارے لیے زمین سے نکالتے ہیں۔ ان میں سے (فی سبیل اﷲ) خرچ کرو۔‘‘ اس میں دستکاری، بیع و شراء وغیرہ داخل ہے۔ گھر کے پلاٹ پر زکوٰۃ، اور سونے چاندی کا نصاب؟ سوال۔کیا اپنے گھر کی جگہ پر کوئی پلاٹ وغیرہ خرید کیا گیا ہو اس پر یا دکان وغیرہ پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کتنی؟ تفصیل سے جواب دیں اور سونے اور چاندی کا نصاب بھی بتائیں۔ (سائل:جمعہ خان۔ تالپوری،ضلع سانگھڑ،سندھ) (یکم ستمبر1995ء) جواب۔ رہائشی مکان پرزکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح وہ پلاٹ جو ذاتی استعمال کے لیے خرید کیا گیا ہے۔ اس پر بھی زکوٰۃ نہیں اور اگر بغرض تجارت ہے تو پھر اس پر زکوٰۃ واجب ہے جس کی صورت یہ ہے کہ اس کی سالانہ قیمت کو ساڑھے باون تولہ چاندی کو معیار بنا کر سال بعد زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اور دکان اگر کرایہ پر دی ہے تو اس کی آمدنی کا حساب چاندی کے سابقہ وزن کو معیار بنا کر زکوٰۃ ادا کی جائے۔ اور اگر وہ ذاتی استعمال کے لیے ہے تو اس میں کوئی شے واجب نہیں۔ قرآن مجید ’’سورۃ التوبہ‘‘ میں مصارف زکوٰۃ میں سے ایک مساکین بھی بیان ہوا ہے۔جب کہ ’’سورۃ الکہف‘‘ میں قصۂ موسیٰ علیہ السلام اور خضر میں صفت مسکینی سے متصف لوگوں کے لیے کشتی کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے۔ جو ذی قیمت شئے تھی۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ذریعۂ آمدن اور ذریعہ پیداوار پر زکوٰۃ نہیں۔ چاندی اور سونے کا نصاب یوں ہے کہ اگر کسی کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی ہوتو اس میں چالیسواں حصہ واجب ہے۔ اور ساڑھے سات تولے سونا
Flag Counter