Maktaba Wahhabi

143 - 614
صاحب ’’المنتقیٰ‘‘ فرماتے ہیں: جن روایات میں نمازِ جنازہ کا ذکر ہے ۔ سند کے اعتبار سے ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں ہے۔ اہل مدینہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نمازِ جنازہ کی نفی کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جو اسانید جیدہ کے ساتھ مروی ہیں اور جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد پر نمازِ جنازہ پڑھی اور حضرت حمزہ پر ستر تکبیریں کہیں وہ روایت صحیح نہیں۔ لیکن علامہ البانی صاحب نے اس قسم کی بعض روایات کو صحیح یا حسن قرا دیا ہے۔ اس کے برعکس علمائے کوفہ جن میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔ شہید پر نمازِ جنازہ کے قائل ہیں۔ ان کا استدلال بعض ان روایات سے ہے۔ جن میں شہید پر جنازہ کا ثبوت ملتا ہے۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ’’تہذیب السنن‘‘ میں رقمطراز ہیں۔ اصل یہ ہے کہ نمازِ جنازہ میں امام کو اختیار ہے کیونکہ دونوں طرف آثار موجودہ ہیں۔ لیکن مسئلہ ہذا میں میرا رجحان شہید معرکہ کے عدمِ جنازہ کی طرف ہے کیونکہ اس بارے میں وارد روایات اصح ہیں۔ بنسبت ان روایات کے جن میں اثبات کا ذکر ہے۔ شیخنا محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فتاویٰ اہل حدیث میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ کسی شخصیت کی مختلف شہروں میں غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنا سوال۔میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بعض دفعہ جب کوئی بااثر شخص فوت ہوجاتا ہے تو اس کی میت پر نمازِ جنازہ پڑھی جانے کے بعد مختلف شہروں میں اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ بھی پڑھی جاتی ہے۔ کیا حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما جیسی بزرگ ہستیوں کے لیے بھی کسی شہر میں ایسی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی گئی تھی؟ اور اگر نہیں پڑھی گئی تھی تو کیوں نہیں پڑھی گئی؟ براہِ مہربانی ایسی غائبانہ نمازِ جنازہ کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے طرزِ عمل کی وضاحت فرمائیں۔ یعنی سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایک بھی ایسی مثال موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ کسی وفات یافتہ کی میت پر نمازِ جنازہ پڑھی جانے کے بعد دوسرے شہر یا گاؤں میں کسی صحابی نے اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائی ہو؟ جواب۔ اسلامی تاریخ میں واقعی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ خلفائے راشدین، مشاہیر صحابہ وغیرہم فوت ہوئے، لیکن کسی مسلمان نے ان پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا نہیں کی۔ کیونکہ اگر کسی نے ادا کی ہوتی تو ان سے تواتر کے ساتھ منقول ہوتا، بلکہ علامہ ناصر الدین البانی تو اس رواج کو بدعت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ احکام الجنائز میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (اِنَّہَا مِنَ البِدَعِ الَّتِی لَا یَمتَرِی فِیہَا عَالِمٌ بِسُنَّتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَذہَبِ
Flag Counter