Maktaba Wahhabi

474 - 614
اس کے خلاف تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس روایت کی صحت محل نظر ہے۔ اور اعتبار کے لائق نہیں۔ اثبت العرش ثم انقش(10 فروری 1995ء) مٹھی بھر داڑھی کا حکم سوال۔ ڈاڑھی کی مقدار مٹھی بھر ہونی چاہیے یا کہ جتنی لمبی ہوتی جائے اس کو آدمی نہ کٹوائے؟ اس میں سے صحیح عمل کونسا ہے ؟ اور مٹھی بھر ڈاڑھی والی حدیث صحیح ہے؟ (محمد یحییٰ عزیز کوٹ رادھا کشن قصور) (6دسمبر1996ء) جواب۔ افضل یہ ہے کہ ڈاڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور اگر کوئی مٹھی سے زائد کٹالے تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں وارد مرفوع روایت تو ضعیف ہے کیونکہ اس میں راوی عمر بن ہارون ضعیف ہے ۔ البتہ جواز کا استدلال متبع سنت والآثار حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے فعل سے ہے۔ جملہ تفاصیل کے لیے ملاحظہ ہو، فتاویٰ اہل حدیث(3/337۔338) موضوعِ ہذا پر قبل ازیں میرا ایک تفصیلی فتویٰ بھی ’’الاعتصام‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (اِعْفَائُ اللِّحْیَۃ)کا کیا مفہوم لیتے ہیں؟ سوال۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اعفاء اللحیہ کا جو مفہوم لیا ہے جیسا کہ آگے بروایت ابن ھانی آرہا ہے کیا وہ اس میں حق پر ہیں یا حدیث کے سمجھنے میں ان سے تسامح ہو گیا ہے جب کہ انھوں نے مسند میں اعفاء اللحیہ سے متعلق پانچ چھ حدیثیں روایت کی ہیں ۔ ان کے شاگرد ابن ھانی نیساپوری کہتے ہیں: ( سَأَلْتُ اَبَا عَبْدَاللّٰہِ عَنِ الرَّجُلِ یَأْخُذُ مِنْ عَارِضِیْہِ ؟ قَالَ: یَأْخُذُ مِنَ اللِّحْیَۃِ مَا فَضْل عن الْقَبْضَۃِ، قُلْتُ: فَحَدِیْثُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ : اِحْفُوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا اللِّحٰی؟ قَالَ یَأْخُذُ مِنْ طُوْلِہَا وَ مِن تَحْتِ حَلْقِہٖ وَ رَأَیْتُ اَبَا عَبْدِ اللّٰہِ یَأْخُذُ مِنْ عَارِضِیْہِ وَ مِنْ تَحْتِ حَلْقِہِ ) [1] جواب۔ ڈاڑھی کی بابت مختار بات یہ ہے کہ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَالْمُخْتَارُ تَرْکُہَا عَلٰی حَالِہَا وَ اَنْ لَا یَتَعَرَّضَ لَہَا بَتَقْصِیْرٍ وَ لَا غَیْرِہٖ ) [2] اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے جو وضاحت فرمائی ہے یہ بعض اقوال و آثار اور حدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ وغیرہ پر
Flag Counter