Maktaba Wahhabi

162 - 614
کہ:(اَلاَحَادِیْثُ یُفَسِّرُ بَعْضُہَا بَعْضًا) ’’احادیث ایک دوسری کی تفسیر ہوتی ہیں۔‘‘بنابریں محولہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم نمازِ جنازہ پڑھنا چاہو تو میت کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرو۔ یہ اقامۃ المسبب مقام السبب کی قبیل سے ہے۔ارادہ سبب اور نماز مسبب ہے ۔ فاء کی ترتیب و تعقیب بلا مہلت ہونے کا یہی مطلب ہے اگر مقصود یہاں دعا بعد الصلوٰۃ ہوتی تو پھر ’’فائ‘‘ کی بجائے لفظ ’’ثُمَّ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ یعنی (فَاَخْلِصُوْا) کی بجائے (ثُمَّ اَخْلِصُوْا) ہونا چاہیے تھا۔ جو عام حالات میں ترتیب اور تراخی(وقفے) کا فائدہ دیتا ہے۔ لہٰذا مفتی صاحب موصوف کی توجیہ غلط ہے کہ فاء تعقیب کا یہی مفاد ہے۔ پھر یہ حدیث سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں ہے۔ امام ابوداؤد نے یہ حدیث جنازے کے دوران دعائیں پڑھنے کے ضمن میں ذکر کی ہے۔ انھوں نے اس پر تبویب یوں قائم کی ہے: (بَابُ الدُّعَاء لِلْمَیِّتِ) ’’میت کے لیے دعا کا بیان۔‘‘ اس حدیث پر امام ابن ماجہ کی تبویب بھی ملاحظہ فرمائیں۔ اور بار بار غور سے پڑھیں۔ وہ فرماتے ہیں:(بَابُ مَا جَائَ فِی الدُّعَائِ فِی الصَّلٰوۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ) ’’نمازِ جنازہ میں دعا کے بارے میں جو کچھ وارد ہوا ہے۔ اس کا بیان) اس سے معلوم ہوا کہ محدثین اور مفتی صاحب کے فہم میں بُعد المشرقین ہے، لہٰذا تحریف ہذا پر انھیں ندامت کا اظہار کرکے حق کی طرف رجوع کی فکر کرنی چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ( وَمُرَاجَعَۃُ الْحَقِّ خَیْرٌ مِنْ التَّمَادِی فِی الْبَاطِلِ)[1] ”باطل پر اصرار سے بہتر ہے کہ آدمی حق کی طرف رجوع کرلے۔‘‘ اگر مفتی صاحب کا مذکورہ قاعدہ تسلیم کر لیا جائے تو بہت سی قرآنی آیات میں بھی معنوی تحریف ہو جائے گی۔ مثال کے لیے یہ آیت ملاحظہ فرمائیں۔ قرآنِ مجید میں ہے: ( فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) (النحل:98) ”جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔‘‘ ائمہ لغت ’’زجاج‘‘ وغیرہ نے اس کے معنی یوں بیان کیے ہیں: (اذَا اَرَدْتَّ اَنْ تَقْرَأَ الْقُرْاٰنَ اِسْتَعِذْ بِاللّٰہِ وَ لَیْسَ مَعْنَاہُ بَعْدَ اَنْ تَقْرَأَ الْقُرْاٰنَ) ”یعنی’’ جب تم قرآن کی تلاوت کا ارادہ کرو تو اللہ سے پناہ مانگ لیا کرو۔یہ معنی نہیں کہ تلاوتِ قرآن کے بعد اعوذ باللہ پڑھا کرو۔‘‘
Flag Counter