Maktaba Wahhabi

106 - 614
وجہ استدلال یہ ہے کہ حدیث ہذا عموم کے اعتبار سے نماز جنازہ کو بھی شامل ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام بھی نماز رکھا ہے۔ چنانچہ فرمایا:(مَنْ صَلَّی عَلَی الْجَنَازَۃِ) نیز فرمایا (صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ ) اور دوسری روایت میں ہے: ( صَلُّوْا عَلَی النَّجَاشِیِّ۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی ’’صحیح ‘‘کے ترجمۃ الباب میں رقم طراز ہیں:( سَمَّاہَا صَلَاۃً لَیْسَ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَ لَا سُجُوْدٌ ) ”نماز جنازہ میں رکوع اور سجود نہ ہونے کے باوجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام نماز رکھا ہے۔ ‘‘ (2) ’’صحیح بخاری‘‘ میں طلحہ بن عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ( صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْہُمَا عَلَی جَنَازَۃٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ قَالَ: لِتَعْلَمُوا أَنَّہَا سُنَّۃٌ) [1] ”میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز جنازہ پڑھی تو انھوں نے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تلاوت کی۔ فرمایا یہ اس لیے کہ تمھیں اس کے سنت ہونے کا علم ہوجائے۔‘‘ صحابہ کا کسی فعل کو ’من السنۃ‘ کہنا اکثر علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ’’کتاب الام‘‘ میں لکھتے ہیں’’آنحضرت کے صحابہ رضی اللہ عنھم جب کسی فعل کو سنت کہتے ہیں تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مراد ہوتی ہے۔‘‘ ”فتح الباری‘‘ (3/204) میں ہے: (وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَی أَنَّ قَوْلَ الصَّحَابِیِّ سُنَّۃٌ حَدِیثٌ مُسْنَدٌ) علمائے حنفیہ نے بھی متعدد فروع اسی اصل پر قائم کی ہیں مثلاً: ہدایہ میں ہے ’’اور جب میت کی سریر اٹھائیں تو اس کے چارپائے پکڑ کر اٹھائیں اس کے ساتھ سنت وارد ہے۔‘‘ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سنت طریقہ یہ ہے کہ سریر کو دو شخص اٹھائیں۔ اگلا شخص اپنی گردن پر رکھے اور پچھلا اپنے سینہ پر۔ شارح ’’ہدایہ‘‘ ابن الہمام، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پر ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام شافعی کا یہ قول سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ( مَنِ اتَّبَعَ الْجَنَازَۃَ فَلْیَأْخُذْ بِجَوَانِبِ السَّرِیْرِ کُلِّہَا فَاِنَّہٗ مِنَ السُّنَّۃِ) [2] ”جو شخص جنازے کے ساتھ جائے وہ باری باری اس کے سب جوانب سے پکڑ کر اٹھائے بے شک یہ مسنون ہے۔‘‘ لہٰذا اس سنت پر عمل ضروری ہے۔
Flag Counter