Maktaba Wahhabi

605 - 614
”یعنی اللہ سے تعلق پیدا کر تو اُسے سامنے پائے گا ۔ آسانی میں اس سے راہ و رسم پیدا کر وہ سختی میں تجھے پہچان لے گا۔‘‘ قرآنِ مجید نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا قول بایں الفاظ نقل کیا ہے: (یٰبَنِیَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَ اَخِیْہِ وَ لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ ) (یوسف:87) ”بیٹا(یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور ان کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو کہ اللہ کی رحمت سے بے ایمان لوگ نا اُمید ہوا کرتے ہیں۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا: (اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ ) (النمل:62) ”بھلا کون بے قرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور(کون اس کی) تکلیف کو دُور کرتا ہے اور(کون ) تم کو زمین میں(اگلوں کا) جانشین بناتا ہے( یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے۔(ہرگز نہیں)‘‘ نیز فرمایا: (وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ) (البقرۃ:195) نیز مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ کار یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں منہمک ہو جاتے تھے۔ ان نصوصِ صریحہ سے معلوم ہوا کہ ہر حالت میں اعتماد بندوں کی بجائے صرف اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے۔ کلمہ لاحول و لا قوۃ الا باللّٰہ کا مفہوم بھی یہی ہے۔ اور اگر کوئی ناعاقبت اندیش اس حالت میں مر جاتا ہے تو اس نے علی وجہ البصیرت جہنم کا مہنگا سودا کیا ہے۔ اہل اصول فرماتے ہیں: (مَنْ تَعَجَّلَ بِشَیْئٍ قَبْلَ اَوَانِہ عُوْقِبَت بِحُرِمَانِہ) دوسرے لفظوں میں اس فعل کا نام خود کشی بھی رکھا جا سکتاہے جس کی وعید کے بارے میں کتاب وسنت میں بے شمار نصوص ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ بہر صورت فعل ہذا کے ارتکاب سے اجتناب ایک ضروری امر ہے۔ اس لیے کہ انسانی جسم چونکہ اللہ کی امانت ہے
Flag Counter