Maktaba Wahhabi

416 - 614
ہے۔ ’’کنوز الحقائق‘‘ میں ایک حدیث بیان ہوئی ہے جس میں بھینس کی قربانی کا جواز ہے لیکن اس کی صحت ثابت نہیں باقی یہ دعویٰ کہ بھینس گائے کی قسم ہے واقعہ کے خلاف ہے۔ ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ہاں زکوٰۃ کے مسئلہ میں بھینس کا حکم گائے والا ہے۔ یعنی نصاب کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہے۔ نیز فرمایا یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے۔ ام المومنین سودہ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا لڑکا پیدا ہوا جو اپنی والدہ کے پاس پرورش پاتا رہا۔ زانی مر گیا اور اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وصیت کرگیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ میں کرلینا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا یہ میرا بھتیجا ہے۔ زمعہ کے بیٹے نے کہا یہ میرے باپ کا بیٹا ہے۔ لہٰذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا۔ مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاہِرِ الحَجَرُ) [1] ”یعنی اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘ یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے۔ بچہ سودہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے حوالہ کردیا۔ جو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا بھی بھائی بن گیا۔لیکن سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ اس سے پردہ کرے ،کیونکہ اس کی شکل و صورت زانی سے ملتی جلتی تھی۔ جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔ اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردہ کا حکم ہوا۔ اور جس کے گھر میں پیدا ہوا، اُس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے ۔ اس میں بھی دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہو گا۔ زکوٰۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے۔ اس بناء پر بھینسے کی قربانی جائزنہیں اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِنَ الْبَقَرِ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے۔یہ بھی اسی زکوٰۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث،ج:2،ص:226۔227) (2)۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرلیے جائیں۔ ایک گھر کے لیے دوسرا احباب تیسرا غرباء مساکین کے لیے۔ اس سلسلہ میں مستند ابن مسعود سے مروی ایک روایت ہے۔ (المغنی: 13/ 379) (3)۔قربانی کے جانور کو ذبح کروانے کی اجرت میں کھال وغیرہ نہیں دینی چاہیے۔ ملاحظہ ہو :صحیح بخاری باب لا یعطی الجزار من الہدی شیئا۔ (4)۔کھالیں صدقہ کردینی چاہئیں’’صحیح بخاری‘‘یتصدق بجلود الہدی مع فتح الباری :3/702۔ ان سے خود بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ [2]
Flag Counter