Maktaba Wahhabi

403 - 614
کو توجہ دلائی جائے۔ چنانچہ اس پر بعض علماء نے تحقیق فرمائی جس سے قارئین ’’الاعتصام‘‘ بھرپور مستفید ہوئے اور کئی علمی نکات سامنے آئے ان میں سے بطورِ خاص رفیق محترم جناب مولانا ارشاد الحق صاحب اثری کا مضمون قابلِ ذکر ہے۔ حضرت مولانا ہماری جماعت کا عظیم قابلِ فخر سرمایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و فضل میں برکت فرمائے۔ آمین۔ مولانا کے مضمون کے بعض مندرجات سے اختلاف ممکن ہے لیکن مجموعی اعتبار سے آپ کی تحقیق نہایت علمی و متین انداز میں تھی جو نہایت قابلِ تحسین ہے۔ جب کہ مولانا ابوالاشبال احمد شاغف( غفراللّٰہ لہ) ’’صحیحین‘‘ کے دفاع میں جذبات سے مغلوب ہو کر اعتدال اور توازن قائم نہ رکھ سکے اور فریق ثانی پر سوقیانہ انداز میں حملہ آور ہوئے اور انھیں اپنے تند و تیز جملوں کے نشتر سے مجروح کرتے چلے گئے ۔ اس پر انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ کے سوا کیا کہا جا سکتا تھا؟ جب حضرت خود ہی اپنے مضمون میں تلخی کے معترف ہیں تو قارئین کے حضرت کے متعلق کیا تاثرات ہوں گے؟ مولانا کا مضمون اس لائق نہیں کہ اس پر کچھ لکھا جائے بلکہ(ان نامناسب الفاظ کی وجہ سے) میرے نزدیک تو سرے سے اشاعت کے قابل ہی نہیں تھا مگر نہ جانے اصحاب’’ الاعتصام‘‘ کو اس میں کیا خوبی نظر آئی کہ علمی دیانت و امانت کے تقاضوں کے پیش نظر وہ اسے طبع کرنے پر مجبور ہو ئے۔ مذکورہ مضمون چونکہ میرے نام سے مکتوب ہے اور میرے مطلع ہونے کے بغیر ہی اسے شائع کردیا گیا۔ اس لیے مجھے چند سطور لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اگر یہ رسالہ طبع ہونے سے قبل میرے مطالعہ میں آتا تو کم از کم قارئین کے نزدیک مولانا کی شخصیت محترم و مکرم ہی رہتی۔ علماء کا بعض مسائل پر اختلاف کرنا بعید از قیاس نہیں لیکن کیا اختلاف رائے کا تقاضا یہی ہے کہ فریق ثانی پر مسموم تیر چلائے جائیں؟ اگر تحقیق اسی کا نام ہے تو ایسی تحقیق کو سلام۔ اگر شیخ البانی کی تحقیق کو قابلِ اعتنا سمجھنے والے’’مقلدین‘‘ کی پھبتی کے حقدار ہیں تو حضرت شیخین کریمین کے ساتھ وابستگی میں انتہائی غلو سے کام لینے والے ’’مقلدین‘‘ کیوں نہیں؟ {تِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی} مجھے معلوم ہے کہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ سے شدید اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اکثر انہی کی تحقیق کے محتاج نظر آئے ہیں۔( والفَضْلُ مَا شَہِدَتْ بِہِ الاَعْدَائ) زیر بحث مسئلہ پر جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ کافی ہے۔ اسے مزید طول دینا مناسب نہیں، لہٰذا ’’الاعتصام‘‘ کو چاہیے وہ اسے یہیں موقوف کردے۔ البتہ اگر واقعتا کوئی مزید علمی تحقیق سامنے آئے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ آخر میں حضرات علماء سے مؤدبانہ التماس ہے کہ کسی کی تحقیق سے اختلاف رائے کا حق رکھتے ہوئے افراط و تفریط سے احتراز فرمائیں۔ خالص علمی اور حکیمانہ انداز میں شریک بحث ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین۔(29جون 2001ء)
Flag Counter