Maktaba Wahhabi

353 - 614
میں ہے۔آل سعود کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے۔ جس کی مثال پیش کرنے سے آج کی دنیا قاصر ہے۔ رب تعالیٰ نے انھیں زمینی خزانوں سے نوازا ہے تو اس کے پسندیدہ مقامات پر زائرین کے آرام کی خاطر اس دولت کو اُس کی راہ میں لٹایا اور پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ رَبِّ زِدْ فَزِدْ ہر زائر کی زبان سے بے ساختہ اس حکومت کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ یا رب العالمین اس موحد سرکار کو تادیر قائم رکھنا تاکہ تیرے دین برحق کی خدمت کرتی رہے ۔آمین یا رب العالمین اسی طرح غسل کعبہ بھی عملی تواتر کی قبیل سے ہے بعض روایات میں تصریح موجود ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کو توڑنے اور تصویروں کو مٹانے کے بعد کعبہ کو غسل دینے کا حکم دیا تھا۔ (اِنَّ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم اَمَرَ بِغُسْلِ الْکَعْبَۃِ بَعْدَ مَا کسر الاَصْنَام وَ طمس التَّصَاوِیْر) [1] یاد رہے کسوۃ کعبہ کے تیسرے باب میں کافی مواد موجود ہے جو فی الجملہ مفید ہے۔ ملاحظہ ہو،ص:227تا 272۔نیز غلاف صرف کعبہ کے احترام کی خاطر پہنایا جاتا ہے۔ جو اسی کا خاصہ ہے۔[2] ترمذی میں حدیث ہے: (وَسَتَرْتُمْ بُیُوتَکُمْ کَمَا تُسْتَرُ الکَعْبَۃُ)[3] ”یعنی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم اپنے گھروں کو ایسے ڈھانکو گے جیسے کعبہ کو ڈھانکا جاتا ہے۔‘‘ [4] یہاں مزید عقلی توجیہات کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ مسلمان ہمیشہ احکامِ الٰہی کا پابند ہوتا ہے چاہے کسی شئے کی مشروعیت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ حجر اسود کے بارے میں ایسی روایات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جس نے اس کا برحق استلام کیا روزِ جزا اس کا گواہ بن کر آئے گا۔ اگرچہ ان روایات میں سے کئی ایک متکلم فیہ ہیں لیکن مجموعی طور پر وہ قابلِ حجت ہیں۔ [5] لیکن
Flag Counter