Maktaba Wahhabi

307 - 614
سوال۔فضیلۃ الشیخ حافظ ثناء اللہ صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔ آج کل ہمارے ہاں اہل علم اور عوام کے درمیان زیورات کی زکوٰۃ کے بارے میں شدید اختلافات چل رہے ہیں۔ ایک فریق زیور کی زکوٰۃ کا قائل ہے اور دوسرا منکر ہے۔ جناب سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ پر مدلل وضاحت فرمادیں تاکہ ہر خاص و عام مستفید ہو۔(محمد عامر خان۔کراچی) (7 جولائی 2000ء) جواب۔ زیورات کی زکوٰۃ میں اہل علم کا شدید اختلاف ہے۔ ایک گروہ زکوٰۃ کے عدمِ وجوب کا قائل ہے۔ ان میں سے صحابہ ، تابعین، تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی ایک جماعت کے علاوہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور صحیح ترین قول کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ جب کہ دوسرا گروہ مباح زیورات میں زکوٰۃ کے وجوب کا قائل ہے۔ ان میں سے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین کی ایک معقول تعداد کے علاوہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔ فریقین کے دلائل اور مناقشہ طوالت کا متقاضی ہے۔ جس کے لیے لمبی مجلس درکار ہے۔ سرِدست اس کی گنجائش نہیں تاہم بالاختصار دلائل ملاحظہ فرمائیں۔ عدمِ وجوب کے دلائل: جو لوگ مباح زیورات میں زکوٰۃکے قائل نہیں ان کے دلائل چار امور میں منحصر ہیں۔ 1۔ ایک حدیث جو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’معرفۃ السنن والاثار‘‘ میں عافیہ بن ایوب کے طریق سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کی ہے: (لَا زَکَاۃَ فِی الْحُلِیِّ ) ’’یعنی زیورات میں زکوٰۃ نہیں۔‘‘ امام صاحب فرماتے ہیں: ( ھٰذَا الْحَدِیْثُ لَا اَصْلَ لَہ…)الخ‘ ’’اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔‘‘ عافیہ بن ایوب مجہول ہے۔اس راوی سے استنادلینے والا اپنے دین اسلام کے بارے میں دھوکہ میں ہے۔ ایسا شخص ان لوگوں میں شامل ہے جو جھوٹوں کی روایت سے دلیل لیتے ہیں۔ ہمارے شیخ علامہ محمد الامین شنقیطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” اسے جھوٹوں کی روایت کی جنس سے دلیل قرار دینا محل نظر ہے، کیونکہ عافیہ کے بارے میں کسی نے نہیں کہا کہ یہ کذاب ہے۔ زیادہ سے زیادہ بیہقی کے خیال میں یہ مجہول ہیں۔ ان کو اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ وہ ثقہ ہیں۔ ابن ابی حاتم نے ابو زرعہ سے اس کی توثیق نقل کی ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تلخیص‘‘ میں کہا:’’ عافیہ بن ایوب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ضعیف ہے۔‘‘ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا :’’مجھے اس میں جرح معلوم نہیں ہو سکی۔ بلاشبہ جس نے اسے ’’ثقہ‘‘ قرار دیا ہے اس کا قول اس سے مقدم ہے۔ جس نے اسے مجہول کہا ہے۔ اصول میں معروف ہے کہ اجمالی جرح پر مجمل تعدیل کو تقدیم حاصل ہے۔ خلاصہ یہ کہ توثیق کا قول بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے قولِ مجہول سے اولیٰ ہے۔ اس بناء پر مذکور حدیث سے استدلال لینا ثابت ہو گیا۔ روایت ِ ہذا محلِّ نزاع میں نص ہوئی۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہمیں اس
Flag Counter