Maktaba Wahhabi

202 - 614
(وَ ھٰذَا الْکَلَامُ ہُوَ الَّذِیْ یَنْبَغِیْ اِعْتِمَادہ فِی الْجَمع بَیْنَ الْاَحَادِیْثِ الْمُتَعَارِضَۃ فِی ) ”یعنی قرطبی کا یہ کلام قابلِ اعتماد ہے جس سے بظاہر متعارض احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ فتح الباری:3/148۔ 4۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے دریافت کیا کہ جب قبرستان جاؤں تو کیا دعا پڑھوں تو جواباً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑھو: (اَلسَّلَامُ عَلٰی اَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ یَرْحَمُ اللّٰہ ُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَائَ ا للّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ) [1] اور جو لوگ عورتوں کو زیارتِ قبور سے منع کرتے ہیں ان کا استدلال اس روایت سے ہے کہ: (لَعَنَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ) [2] یعنی ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔‘‘ اور بعض الفاظ میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ مسندطیالسی(1/171) ابن ماجہ(1575) علامہ ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں: ’’ممکن ہے مراد اس سے وہ عورتیں ہوں جو کثرت سے زیارتِ قبور کرتی ہیں ۔‘‘ اور علامہ قرطبی فرماتے ہیں: ’’بعض اہل علم نے ترمذی کی روایات میں وارد لعنت کو کثرتِ زیارت پر محمول کیا ہے کیونکہ زوَّارات مبالغہ کا صیغہ ہے۔[3] نیز امام موصوف فرماتے ہیں: ’’ اگر عورت قبرستان میں زیادہ نہ جائے نوحہ نہ کرے مرد کے حقوق ضائع نہ کرے تو اس کو جانا جائز ہے۔ ورنہ نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو زیارت کرنے والی عورتوں کو لعنت کی ہے۔ یہ رخصت سے پہلے تھی جب رخصت ہوئی تو عورتوں مردوں سب کو ہو گئی اور عورتوں کےلیے جو زیادہ مکروہ ہے وہ صرف بے قراری اور بے صبری کی وجہ سے ہے۔ اور علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اعتماد کے قابل و لائق بتایا ہے۔ بلاشبہ مختلف احادیث کو تطبیق دینے کی یہ ایک بہترین صورت ہے۔(وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ )
Flag Counter