Maktaba Wahhabi

199 - 614
1۔ مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی گناہ ہے یا نہیں؟ 2۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی بلاوجہ یا بربنائے دشمنی و انتقام قبر کھود ڈالے تو ایسے شخص کی شریعت اسلامیہ میں کیا سزا ہے ؟ 3۔ اگر کوئی شخص کسی شخص کو اپنی والدہ کی قبر کھودتے ہوئے دیکھے تووہ اس شخص سے کیا سلوک کر سکتا ہے ؟ کہاں تک اسے بدلہ یا سزا کا حق ہے اس سے قطع تعلق کرنا یا اس کو دل سے برا جاننا اور سزا دینا، انتقام لینا ان میں کیا بہتر ہے؟ (سید محمد اخلاق، کراچی) (11جون 1999ء) جواب۔ محترم اپنے سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔ بلاشبہ شریعت اسلامیہ میں اکرامِ مسلم کو بڑی اہمیت حاصل ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ۔ عمرو بن حزم کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس قبر والے کو ایذا نہ دے۔ اور دوسری روایت میں ہے میت کی ہڈی توڑنا زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔[1] اور’’صحیح مسلم‘‘میں ابومرثد غنوی سے مرفوعاً مروی ہے : (لَا تَجْلِسُوا عَلَی الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوا إِلَیْہَا) [2] یعنی ’’قبروں پر مت بیٹھو اور نہ ان کی طرف اور نہ ان کے اوپر نماز پڑھو۔‘‘ ان نصوص سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی عزت و احترام ہر حالت میں واجب ہے۔ اس کی اہانت کرنے والے کے ساتھ وہی کچھ ہونا چاہیے جس کے وہ لائق ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ اس کے لیے مناسب طریقہ سزا و تادیب تجویز کرے جس سے عام لوگوں کو عبرت ہو تاکہ آئندہ ایسے فعلِ شنیع کا اعادہ نہ ہونے پائے لیکن اس کے بدلہ میں کسی کو موت کے گھاٹ اتارنا بہر صورت ناجائز ہے۔ 1۔ قبروں کی بے حرمتی کرنا بلاشبہ گناہ ہے لیکن اس کے مباح الدم ہونے کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں۔ 2۔ حکومت جو مناسب سمجھے بطورِ تعزیر سزا دے سکتی ہے۔ 3۔ ایسے شخص سے ہر ممکن طریقہ سے نفرت کا اظہار ہونا چاہیے اور اگر وہ تائب ہو جائے تو پھر رنجش دل سے نکال دینی چاہیے۔
Flag Counter