Maktaba Wahhabi

152 - 614
کے برابر کرکے قبروں کا نام و نشان مٹا دیا گیا تاکہ عامۃ الناس اور جہلاء کے لیے فتنہ کا سبب نہ بنے۔[1] پھر حدیبیہ کے مقام پر جس درخت کے زیر سایہ’’بیعت الرضوان‘‘ کا انعقاد ہوا تھا جب اس کے بارے میں خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ لوگ اسے متبرک سمجھ کر اس کی زیارت کے لیے اہتمام کرتے ہیں تو اس کو جڑ سے کٹوا پھینکا باوجودیکہ اس شجرۂ عظیم کا تذکرہ کتاب الٰہی میں بھی مصرح ہے۔ جو اس کی عظمت پر دالّ ہے۔ مزید آنکہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بحالت سفر ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔ پھر دیکھا کہ لوگ ادھر اُدھر جا رہے ہیں۔ دریافت کیا کہ یہ کہاں جاتے ہیں؟ کہا گیا: اے امیر المومنین! ایک مسجد ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تھی یہ اسی میں نماز پڑھتے ہیں۔ فرمایا: پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہو گئیں کہ انھوں نے انبیاء علیہم السلام کے آثار کی پیروی میں ان جگہوں میں عبادت خانے اور گرجے بنا لیے۔ جس شخص کو ان مسجدوں میں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھے ورنہ گزر جائے۔[2] پھر سب سے بیّن اور واضح بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فتنے سے بچانے کی غرض سے ہی ’’مسجد ضرار‘‘ کو منہدم کردیا تھا۔ یہاں قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں گھروں میں قبریں بنانا مذموم فعل اور منکر کام ہے۔ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے: (لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ مَقَابِرَ) [3] شارح بخاری شریف حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ( فَاِنَّ ظَاہِرَہٗ یَقْتَضِی النَّھْیَ عَنِ الدَّفْنِ فِی الْبُیُوْتِ مُطْلَقًا ‘ وَاللّٰہ اَعْلمُ) [4] یعنی’’ مذکورحدیث کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ گھروں میں قبریں بنانا مطلقاً ممنوع ہے۔‘‘ بنابریں گھروں میں قبروں کے آثار باقی رکھنابھی ممنوع ٹھہرا، لازم ہے کہ فعل منکر کو تبدیل کیا جائے،اس کی صورت یوں ہوسکتی ہے۔اگر تو یہ قبریں گزر گاہ سے الگ ہیں تو ان کو زمین کے برابر کردیا جائے۔ اور اگر راستہ میں پڑتی ہیں تو ہڈیاں نکال کر مسلمانوں کے عمومی قبرستان میں دفن کردی جائیں۔ البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مشرکین اور گور پرستوں کو جائے دفن کا علم نہ ہونے پائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ پھر کسی وقت یہاں شرک و بدعت کا اڈا قائم کرلیں۔ لہٰذا آپ بھی اس کارِ خیر میں مساہمت اور مسابقت کے جذبہ کا اظہار فرمائیں۔ وَالتَّوْفِیْقُ بِیَدِ اللّٰہِ
Flag Counter