Maktaba Wahhabi

128 - 614
نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے کہا تو گاؤں کے بعض لوگوں نے اختلاف کیا۔ ایک حنفی مولوی صاحب سے یہ سوال پوچھا گیا تو انھوں نے جنازہ نہ پڑھانے کا فتویٰ دیا۔ چند اہل حدیث افراد کے اصرار کے باوجود انھوں نے جنازہ نہیں پڑھایا۔ مہربانی فرما کر قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں آگاہ کریں۔ (سائل) (16 جون2000) جواب۔متعدد بار جنازہ پڑھنا جائز ہے۔’’صحیح بخاری‘‘اور مسلم میں حدیث ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک میت کی قبر کے پاس سے ہوا۔ جسے رات ہی دفن کیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر صحابہ رضی اللہ عنھم نے کہا آج رات ہی فوت ہوئی ہے۔ فرمایا: مجھے کیوں نہ خبر دی ؟ صحابہ رضی اللہ عنھم نے کہا ہم نے اسے اندھیرے میں ہی دفن کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ پس آپ کھڑے ہوئے اور ہم نے بھی آپ کے پیچھے صف باندھی اس پر نمازِ جنازہ پڑھی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے، ایک حبشی یا جوان مرد جو مسجد میں جھاڑو دیتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ دیکھ کر اس کی بابت پوچھا۔ لوگوں نے کہا وہ مرگیا ہے۔ فرمایا: مجھے تم نے خبر کیوں نہ دی؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں لوگوں نے گویا اس کا معاملہ چھوٹا سمجھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی قبر بتاؤ۔ انھوں نے قبر بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر جا کر نمازِ جنازہ ادا کی۔ پھر فرمایا : قبریں اندھیرے سے بھری ہوتی ہیں۔ میرے نمازِ جنازہ پڑھنے سے اللہ ان کو روشن کردیتا ہے۔ یہ الفاظ ’’مسلم‘‘ کے ہیں: (بَابُ السِّر بِالْجَنَازَۃِ) [1]جب قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنا ثابت ہو گیا تو میت کے قبر سے باہر ہونے کی صورت میں دوبارہ جنازے کے جواز میں کیا شک رہ جاتا ہے ؟ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے شخص کی نمازِ جنازہ پڑھی جس پر پہلے نمازِ جنازہ پڑھی جا چکی تھی۔[2] بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ دوبارہ جنازہ پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے کیونکہ الفاظِ حدیث ہیں: ’’فرمایا : میرے جنازہ پڑھنے کی وجہ سے اللہ ان کی قبریں منور کردیتا ہے۔‘‘ مگر یہ بات درست نہیں۔ یہ تو ایسا ہے ، جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میت پر چالیس اہل توحید جنازہ پڑھیں اللہ تعالیٰ ان کی سفارش قبول فرمالیتا ہے۔‘‘ [3] کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ چالیس سے کم افراد جنازہ نہ پڑھیں۔ نیززکوٰۃ کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً) ’’ان کے مالوں سے صدقہ لے۔‘‘(تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلاَتَکَ سَکَنٌ لَہُمْ) (التوبۃ:103) ’’تاکہ انکے صدقہ کے ذریعے تو ان کا ظاہر و باطن پاک کرے، اور ان کے لیے دعا کر، بے شک تیری دعا ان کے لیے تسلی ہے۔‘‘ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ لینا آپ ہی کا خاصہ ہے ؟ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اُمت کے لیے باعثِ تسلی ہے۔ کسی دوسرے کی نہیں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں جو لوگ منکر زکوٰۃ ہوئے۔ انھوں نے اسی آیت سے استدلال
Flag Counter