Maktaba Wahhabi

62 - 566
’’بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ،حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے۔‘‘ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ جب دل دنیا کے دستر خوانوں سے بے نیاز ہوجائیں تو پھر وہ آخرت کے دستر خوانوں پر بیٹھتے ہیں اور وہ ان لوگوں میں سے ہوجاتے ہیں جنہیں وہاں سے دعوت دی جاری ہو، اور جب دنیا کے دستر خوانوں پر راضی ہوجائیں تو آخرت کے دستر خوان چھوٹ جاتے ہیں۔‘‘[1] ۳۔سعادت مندی کے حصول میں مشغولیت: مختلف قسم کی دنیاوی لذات اور عیش پرستی کے سازو سامان کے حصول پر حریص ہونے سے لوگوں کا ہدف سعادت و رتبہ کا حصول ہے۔ جب دل اس سعادت کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بے چین ، مضطرب اور پریشان رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے مقصود کو پالے۔ ان چیزوں کی سعادت ایک وہم اور سراب ہے جو کبھی بھی حاصل ہونے والی نہیں۔ انسان تو ہمیشہ ان کے پیچھے پڑا رہتا ہے ، مگر اسے یہ سعادت حاصل نہیں ہوتی۔ سیّدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس شخص کو بڑی فکر دنیا کی ہی ہو تو اللہ تعالی اس کے کام منتشر کر دے گا اور اس کی مفلسی دونوں آنکھوں کے درمیان کر دے گا اور دنیا اس کو اتنی ہی ملے گی جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہے اور جس کی نیت اصل آخرت کی طرف ہو تو اللہ تعالی اس کے سب کام درست کر دے گااور اس کے دل کو غنا سے بھر دے گا اور دنیا جھک کراس کے پاس آئے گی۔ ‘‘[2] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنے شیخ ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعلق اس وقت کا قصہ
Flag Counter