Maktaba Wahhabi

544 - 566
۳۔عمل اور عبادت: بعض لوگ اپنی عبادت پر تکبر کرتے ہیں۔اس وجہ سے وہ لوگوں پر اپنا یہ حق سمجھتا ہے کہ وہ اسے آگے کریں۔اور اس کا تذکرہ زہد و عبادت اور ورع و تقویٰ کے ساتھ کریں، اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ باقی لوگ تو بس ہلاک ہونے والے ہیں اور نجات پانے والا وہ اکیلا ہے۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا قَالَ الرَّجُلُ: ہَلَکَ النَّاسُ، فَہُوٰ أَہْلَکُہُمْ۔)) [1] جب کوئی انسان یہ کہے کہ لوگ ہلاک ہو گئے تو وہ خود ان سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔‘‘ ابو اسحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ مجھے علم نہیں کہ ’’أہلَکَہُمْ ‘‘[کاف پر زبر کے ساتھ ] ہے یا پھر ’’ أہلَکُہُمْ‘‘[کاف پر پیش کے ساتھ ]ہے۔‘‘ مشکل پیرائے کی تشریح: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((إِذَا قَالَ الرَّجُلُ: ہَلَکَ النَّاسُ ، فَہُوَ أَہْلَکُہُمْ۔)) [لفظ] (أہلَکُہُمْ) کے اعراب میں دو طریقے مشہور ہیں۔ اس میں کاف پر زبر کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور پیش کے ساتھ بھی۔ پیش کے ساتھ پڑھنا زیادہ مشہور ہے۔ جب پیش کے ساتھ (أہلَکُہُمْ) پڑھیں گے تو اس لحاظ سے اس کامعنی یہ ہوگا کہ یہ ان سب سے بڑھ کر خود ہلاک ہونے والا ہے۔ اور جب یہ لفظ زبر کے ساتھ (أہلَکَہُمْ) پڑھیں گے تو اس لحاظ سے معنی ہوگا کہ اس نے دوسرے لوگوں کو ہلاکت میں ڈال دیا ؛ یا ہلاک کردیا۔نہ یہ کہ لوگ حقیقت میں ہلاک ہوئے۔ علمائے کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ یہ مذمت اس انسان کے لیے ہے جو ایسی بات تکبر کے طور پر کہے۔ انھیں حقیر جانتے ہوئے ، اور ان پر اپنی فضیلت گمان کرتے ہوئے ؛ اور لوگوں کے احوال کی برائی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔ اس لیے کہ خلقت میں اللہ تعالیٰ کے
Flag Counter