Maktaba Wahhabi

48 - 566
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابو بکر وسیّدنا عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! روزِ قیامت تم سے ضرور بالضرور ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا ، تمہیں گھر سے بھوک نے نکالا ، اور پھر اس وقت تک گھر نہیں پلٹے جب تک کہ تمہیں یہ نعمتیں نہیں مل گئیں۔‘‘[1] اگر اس امت کے سب سے بڑے تین افراد کا یہ حال ہے کہ ان سے بھی ان نعمتوں کے متعلق سوال ہو گا جوکہ انھیں بہت سخت بھوک کے بعد ایک ہی بار حاصل ہوگئیں۔ تو پھر ہم لوگوں کا کیا حال ہوگا جو روزانہ تین وقت اعلی قسم کے مرغن او رپرتعیش قسم کے کھانے کھاتے ہیں۔ کیا عیش پرستی و تونگری لازم و ملزوم ہیں؟ عیش پرستی کی بنیاد و اساس اکثر و بیشتر تونگری پر قائم ہوتی ہے۔ مگر تونگری کے لیے عیش پرستی لازم نہیں۔ کتنے ہی غنی اور مال دار لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ بخیلوں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے اہل خانہ فقر و حاجت میں مبتلا رہتے ہیں۔ کتنے ہی فقیر ایسے ہوتے ہیں کہ نعمتوں ، ملذات اور شہوات کے حصول کے لیے ہر طرح کی کوششیں کرتے ہیں ، حتی کہ وہ انہی کوششوں میں مقروض بھی ہوجاتے ہیں ، جیسا کہ زہد کے لیے فقیر ہونا لازمی نہیں ہے اور کتنے ہی غنی ایسے گزرے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مال وجاہ اورہر قسم کی نعمت سے نوازا تھا مگر انہوں نے زاہد بن کرزندگی بسر کی۔ یہ مقصود نہیں ہے کہ انسان اپنے مال و تجارت اور مملوکات کو چھوڑ دے تاکہ وہ عیش پرستی سے دور ہوجائے بلکہ ایسا بالکل ممکن ہے کہ انسان ان تمام چیزوں کی حفاظت کرتے ہوئے عیش پرستی سے بھی دور رہے ، اور عرف کے مطابق اپنے نفس پر اور اپنے اہل خانہ پر خرچ بھی کرے ، اور اللہ کی راہ میں فقراء ،مساکین پر صدقہ و خیرات بھی کرے اور اس کے پاس اتنا
Flag Counter