Maktaba Wahhabi

456 - 566
اور اس کے مجتمع کاموں کو منتشر کر دیتا ہے اور دنیا بھی اسے اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے لیے مقدر ہے۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اے ابن آدم! اپنے دل کو دنیا کے ساتھ نہ لگا۔ بے شک دنیا کے ساتھ دل لگانا سب سے بری چیز سے دل لگانا ہے۔ اس سے اپنی امیدیں توڑ دے، اور دنیا کے دروازے بند کردے۔ اے ابن آدم! اس دنیا میں سے تیرے لیے اتنا ہی کافی ہے جو تجھے تیری منزل تک پہنچا دے۔‘‘[1] ۵۔ دنیا کی محبت کے انجام پر غور وفکر: علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ دل میں دنیا کی شہوت ایسے ہی ہوتی ہے جیسے معدہ میں کھانے کی شہوت، اور عنقریب انسان موت کے وقت اپنے دل میں ان شہوات کے لیے کراہت اور ناپسندیدگی، قباحت اور بدبو پائے گا، جیسا کہ معدہ میں لذیذ کھانے جب ختم ہو جائیں تو کراہت سی پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ کھانا جتناہی لذیذ اور ذائقے دار ہوگا اور جتنا ہی زیادہ مرغن اور میٹھا ہوگا؛ فضلہ اسی قدر بدبودار ہوگا۔ایسے ہی ہر وہ شہوت جو نفس میں زیادہ لذت والی ہو، اور زیادہ قوت والی ہو، اسی قدر موت کے وقت اس کی اذیت سخت ہوگی، جس طرح کسی شخص کا محبوب اچانک اس سے بچھڑ جائے ، یا مرجائے ، تو جس قدر وہ محبوب پیارا ہوگا اسی قدر اس کا غم سخت ہوگا۔بالکل ایسے ہی جب دنیا کی نعمتیں اور لذتیں انسان سے چھوٹیں گی ، تو جس قدر انسان کو ان سے پیار ہوگا ، اسی قدر وہ تکلیف اور دکھ اٹھائے گا۔ مسند احمد بن حنبل میں ہے: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے ضحاک ! تیرا کھانا کیا ہے؟ عرض کیا: ’’ گوشت اور دودھ۔ فرمایا: پھر آخر
Flag Counter