Maktaba Wahhabi

115 - 566
ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت تھوڑا کرتا ہے۔‘‘[1] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ نمازوں میں ان کے پہلے وقت سے تاخیر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا وقت ختم ہونے کے قریب ہوجاتاہے۔صبح کی نماز سورج کے چڑھ جانے کے بعد پڑھتے ہیں ، عصر سورج غروب ہونے کے وقت پڑھتے ہیں۔ اور کوّے کی طرح ٹھونگیں مارتے ہیں۔ اس وقت تو یہ صرف بدن کی نماز یعنی ورزش رہ جاتی ہے ،دل کی نماز نہیں ہوتی، اور اس نمازکو بھی لومڑی کی طرح جلدی جلدی بھاگم بھاگ میں صرف جان چھڑانے کی کوشش میں پورا کرتے ہیں۔ ‘‘[2] ۲۹۔ باجماعت نماز سے پیچھے رہ جانا: سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ وہ کل اسلام کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ساری نمازوں کی حفاظت کرے جب انھیں نماز کے لیے بلایا جائے یعنی جب اذان ہو جائے اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے متعین کر دئیے ہیں اور یہ نمازیں بھی ہدایت کے طریقوں میں سے ہیں، اور اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا( منافق) اپنے گھر میں پڑھتا ہے تو تم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ دیا ہے، اور اگر تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے اور کوئی آدمی نہیں جو وضوکرے پھر ان مساجد میں سے کسی مسجد کی طرف جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے ، اس کا ایک درجہ بلند کرتا اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ہم مشاہدہ
Flag Counter