Maktaba Wahhabi

328 - 566
ہو، وہ اس فانی دنیا سے اعراض کرنے والا ہوتا ہے۔اس کی تمام تر سوچ اور فکر اورجدوجہد آخرت کے لیے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴾ (القصص:۸۳) ’’آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں پرہیزگاروں کے لیے نہایت ہی عمدہ انجام ہے۔‘‘ علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دنیا کا ارادہ تک بھی نہیں کرتے۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر بالادستی چاہنے، زمین میں غلبہ پانے اور لوگوں پر تکبر کرنے اور حق بات جھٹلانے کے لیے کیسے کوئی کوشش کرسکتے ہیں۔‘‘[1] ۴۔ احساس ِ امانت سے لاشعوری: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴾ (الأحزاب:۷۲) ’’ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے(مگر)انسان نے اٹھا لیا وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔ ‘‘ سیّدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص بھی دس افراد یا اس سے زیادہ کا ولی امر بنایا جاتا ہے ، مگر وہ قیامت
Flag Counter