Maktaba Wahhabi

524 - 566
(۳)… خود پسندی (۴)… اور سستی۔ جلد بازی کی وجہ سے ندامت اٹھانا پڑتی ہے۔ لجاجت انسان کو حیرت و درماندگی کا شکار کردیتی ہے۔ خود پسندی کی وجہ سے بغض جنم لیتا ہے اور سستی کی وجہ سے ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘[1] سہل بن عبد اللہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: انسان کو کب پتہ چل سکتا ہے کہ وہ اہل سنت و الجماعت کے منہج پر ہے؟ فرمایا: ’’ جب اسے اپنے نفس میں دس چیزوں کا علم ہوجائے: (۱)جماعت کو نہ چھوڑے۔(۲)اصحاب النبی رضی اللہ عنہم کو برا بھلا نہ کہے۔(۳)اور اس امت کے خلاف تلوار لے کر خروج نہ کرے۔(۴)تقدیر کو نہ جھٹلائے۔ (۵)اور ایمان کے بارے میں شک و شبہ نہ رکھے۔(۶)اور دین میں جھگڑا نہ کرے۔(۷)اہل قبلہ میں سے جو کوئی گناہ گار مرجائے اس کی نماز جنازہ ترک نہ کرے۔ (۸) موزے پر مسح کرنا نہ چھوڑے،(۹)اور کسی بھی حکمران کے پیچھے نماز ترک نہ کرے خواہ وہ حاکم عادل ہو یا ظالم۔‘‘ علماء سے جھگڑا کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ بعض علمی مسائل میں بہت ہی جھگڑالو ثابت ہوتے ہیں۔وہ علمائے کرام اور دین کے طالب علم حضرات کی مجالس میں ایسے مسائل پر مباحثہ و تکرار کرتے ہیں جس سے ان کا مقصد یہ ہوتاہے کہ وہ ان لوگوں کے سامنے اپنی علمیت ظاہر کریں، اور اپنی فصاحت و بلاغت کا سکہ جمائیں، اور اپنی زبان دانی کے جوہر دیکھائیں۔ ایسا کرنا شرعی طور پر مذموم اور ناپسندیدہ ہے۔ سیّدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
Flag Counter