Maktaba Wahhabi

474 - 566
اشتباہ ہے، اور ان آیات میں جھگڑا کرتے ہیں تاکہ وہ فتنہ پیدا کرسکیں۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ ایسے لوگ آئیں گے جو تم سے متشابہ القرآن میں جھگڑا کریں گے۔ پس تم سنتوں پر کاربند رہو۔اس لیے کہ سنت پر عمل کرنے والے کتاب اللہ کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔‘‘[1] جدل اور طبیعت انسانی جدل انسانی طبیعت کا مرکب ہے۔ انسان بہت ہی زیادہ جھگڑا کرنے والا اور کٹ حجتی کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ﴾ (الکہف:۵۴) ’’اور انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔‘‘ یعنی کثرت کے ساتھ جھگڑا کرنے والا ، جو حق کی طرف رجوع نہیں کرتا اورنہ ہی کسی نصیحت سے سبق حاصل کرتاہے۔ ‘‘[2] علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، تو فرمایا کہ تم دونوں نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! (( أَنْفُسُنَا بِیَدِ اللّٰہِ فَإِذَا شَائَ أَنْ یَّبْعَثَنَا بَعَثْنَا ، فَانْصَرَفَ حِیْنَ قُلْتُ ذٰلِکَ، وَلَمْ یَرْجِعْ إِلَیِّ شَیْئًا۔ ثُمَّ سَمِعْتُہٗ وَہُوَ مُوَلٍّ یَضْرِبُ فَخِذَہٗ وَہُوَ یَقُوْلُ: ﴿ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ﴾۔))[3] ’’ہماری جانیں اللہ کے قبضہ میں ہیں جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے گا تو ہم اٹھیں گے۔جب ہم لوگوں نے یہ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹ گئے اور ہم لوگوں کی
Flag Counter