Maktaba Wahhabi

300 - 566
سے ہر ایک دوسرے کا محتاج اور ضرورت مند ہے، اور اس اجتماع کے وقت انتہائی ضروری امر یہ ہے کہ کوئی ایک ان کا بڑا ہو۔ اس کی بابت [ سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب سفر میں تین آدمی ہوں تو انھیں چاہئے کہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنا لیں۔‘‘[1] سونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھوٹے سے اجتماع پر جو کہ سفر کی وجہ سے پیش آیا ، اس پر بھی ایک آدمی کو امیر بنانے کو واجب قرار دیا۔ جس میں باقی تمام انواع و اقسام کے اجتماع پر ایک امیر بنانے کے لیے تنبیہ ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب قرار دیاہے، اور ان امور کا بجالانا قوت اور امارت کے بغیر ممکن نہیں اور ایسے ہی باقی وہ تمام اموربھی ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیے ہیں جیسے: جہاد ، عدل و انصاف ،حج قائم کرنا ، جمعہ اور عید، مظلوم کی مدد اور شرعی حدود قائم کرنا قوت اور امارت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ … کہا جاتا ہے کہ ساٹھ سال ظالم حکمران کی حکومت میں گزارنا اس ایک رات سے بہتر ہیں جو بغیر کسی حاکم کے بسر کی جائے اور تجربہ سے یہ چیز واضح ہوتی ہے۔‘‘[2] پس اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لوگ اپنے تمام اہم ترین امور میں کسی ایسے دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں جو کہ ان کا نظام چلا سکے، اوران کے تمام امور کی نگرانی یا نگہداشت کرسکے، اور ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاسکے۔ ولایت سے متعلق مسلمان کا مؤقف: سیّدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عبدالرحمن بن سمرہ! امارت طلب نہ کر۔ اس لیے کہ اگر تمہیں طلب کرنے
Flag Counter